آرایس ایس ہندو مذہب اور ہندستان کا خد و خال بدل رہا ہے... عبید اللہ ناصر
بھگوان رام کے نام پر وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو ان کی تعلیمات اور اصولوں کے خلاف ہے، ہندو مذہب کو اصل روپ میں بچانے کی ذمہ داری ہندوؤں پر ہی ہے، ورنہ آر ایس ایس نے تو ایک نیا ہندو مذہب رائج کر ہی دیا ہے۔
ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی
درد بیچارہ پریشاں ہے کدھر سے اٹھے
گزشتہ دس برسوں سے ہندستانی مسلمانوں پر جو مظالم ہو رہے ہیں، جس طرح سے ان کا عرصۂ حیات تنگ کیا گیا ہے، جس طرح سے قدم قدم پر ان میں احساس بیگانگی پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، وہ ایک داستان خونچکاں ہے۔ ایسا نہیں کہ اس سے پہلے یہاں ان کے لئے سب کچھ بڑھیا تھا۔ فسادات کے لامتناہی سلسلوں نے ہزاروں بلکہ لاکھوں جانیں لیں، کھربوں روپیہ کی املاکیں خاکستر ہوئیں، سرکاری ملازمتوں میں ان کا تناسب گرتا چلا گیا، لیکن کئی باتیں امید افزا بھی تھیں۔ اول تو چند ہزار فسادیوں کے مقابلہ میں لاکھوں لاکھ ہندو مسلمانوں کے ساتھ ان کی حمایت میں کھڑے ہوتے تھے۔ مسلمان احتجاج کرتے تھے تو ان کے گھروں پر بلڈوزر نہیں چلتا تھا۔ سماج میں مذہبی تفریق اور مسلمانوں سے نفرت اتنی گہری نہیں تھی اور حکومتیں کھل کر مسلم دشمنی کا مظاہرہ نہیں کرتی تھیں۔ برائی کو برائی کہنے والوں کی تعداد اتنی کم نہیں ہو گئی تھی جتنی اب ہو گئی ہے۔ 2014 کے پہلے اور بعد کے ہندستان کو دیکھیے تو دونوں میں زمین آسمان کا فرق دکھائی دے گا۔ یہی نہیں، صرف ہندستان ہی نہیں بدلا ہے ہندو مذہب بھی بدل گیا ہے۔ اگر بدل نہ گیا ہوتا تو گنیش چترتھی کے پنڈال سے ایک کیلا اٹھا کر کھا لینے والے ذہنی طور سے معذور ایک مسلم نوجوان کو کھمبے سے باندھ کر اتنا نہ پیٹا جاتا کہ اس کی موت ہو جائے۔ یہ خبر پڑھ کر مجھے ممتاز شاعر مرحوم خورشید افسر بسوانی کی آپ بیتی کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ بچپن میں ہم اور ہمارا ایک دوست اکثر گاؤں کے مندر سے پرساد میں چڑھایا گیا لڈو موقعہ دیکھ کر اٹھا کے کھا لیتے تھے۔ ایک بار ہم دونوں پکڑے گئے۔ پجاری کے سامنے پیشی ہوئی۔ واقعہ سن کر انہوں نے ہمارے سروں پر ہاتھ پھیرا اور پکڑ کر لے جانے والوں سے کہا کہ بھگوان کا پرساد تھا بال بھگوان نے کھا لیا، اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
ایودھیا کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے مرحوم لئیق اختر فیض آبادی نے لکھا تھا کہ ایودھیا کے کچھ شہدے ایک مسلم بیوہ کی جوان لڑکی سے چھیڑ خانی کرتے تھے۔ تنگ آ کر وہ بیوہ بڑے مہنت جی کے پاس گئی اور ان سے سارا واقعہ بتایا۔ مہنت جی نے فوراً اپنے کچھ چیلوں کو بھیج کر ان شہدوں کو پکڑوا بلوایا اور اس بیوہ کے سامنے ہی ان کی خوب پٹائی کروائی، اور پھر بیوہ سے کہا– بیٹی تم جلد از جلد اپنی لڑکی کی شادی کر دو۔ بیوہ نے اپنی معاشی مجبوریوں کا ذکر کیا تو مہنت جی نے کہا کہ تم رشتہ طے کرو، شادی مندر کی طرف سے ہوگی۔ اسی ایودھیا میں بابری مسجد تنازعہ کے دونوں فریق مرحوم ہاشم انصاری اور مہنت جی ایک ہی رکشے سے ایودھیا سے فیض آباد پیشی پر عدالت آتے تھے۔ مہاپنڈت مہاپجاری پنڈت کملاپتی ترپاٹھی نے کہا تھا کہ بابری مسجد پر گرنے والا پہلا پھاؤڑا میرے سر پر گرے گا۔ میں تو اس کا چشم دید گواہ ہوں کہ فیض آباد کے ضلع مجسٹریٹ اور کپتان پولیس پنڈت جی کو سمجھا رہے تھے کہ مسجد پوری طرح محفوظ ہے، مگر وہ بضد تھے کہ میں خود چل کر دیکھوں گا۔ اور ضلع انتظامیہ ان کو ایودھیا لے جانے پر مجبور ہو گئی، جبکہ وی پی سنگھ سمیت درجنوں بڑے بڑے لیڈروں کو فیض آباد سے آگے جانے ہی نہیں دیا گیا تھا۔ ایسا تھا ہمارا ہندوستان اور ہندو مذہب جس کو اب پہچان پانا مشکل ہو رہا ہے۔
آزادی کے بعد ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل ملک کے بہترین دماغوں نے ملک کے لیے جو آئین مرتب کیا تھا وہ ملک کے ہر باشندہ کو، خواہ اس کا مذہب، ذات و برادری، زبان و علاقہ کچھ بھی ہو، یا اس کی آبادی کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، برابری کے حقوق دیتا ہے۔ اسی وقت ایک دوسری دھارا بھی ملک میں بہہ رہی تھی جس کا آئین مرتب کیا تھا آر ایس ایس کے نظریہ ساز گرو گولوالکر نے جو ’ہم و ہماری قومیت کی تشریح‘ نام کی کتاب کی شکل میں منظر عام پر آئی تھی۔ گرو گولوالکر نے ملک کے تین اندرونی دشمنوں کی شناخت کی تھی- مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ۔ وہ ملک میں ان کو کوئی شہری اور آئینی حق دینے کے حامی نہیں تھے۔ انہوں نے صاف لکھا ہے کہ وہ اس ملک میں دوسرے درجہ کے شہری بن کر ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہی ہندستان میں رہ سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ کوئی برابری کا سلوک نہیں کیا جائے گا، خصوصی سلوک کا تو سوال ہی نہیں۔ وہ بنیادی طور سے نئے آئین کے بھی مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ رِشیوں منیوں کی تیار کردہ منو اسمرتی جب ہمارے پاس موجود ہے تو کسی نئے آئین کی کیا ضرورت۔ وہ تین رنگوں کے امتزاج یعنی ترنگے کو بدشگون مانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 1994 تک ناگپور میں واقع آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر پر ترنگا نہیں لگایا گیا تھا۔ 2014 تک ہندوستان آئین کے مطابق چلتا رہا، لیکن 2014 کے بعد یعنی ملک میں مودی کا دور شروع ہوتے ہی سب کچھ ایک دم بدل گیا۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب ملک کے کسی نہ کسی حصہ میں معمولی بات کو لے کر مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملہ نہ کیا جاتا ہو۔ بجرنگ دل کے لمپٹ بگڑیل نوجوان دھرم دھوج (مذہبی پرچم) لے کر خدائی فوجدار بن چکے ہیں اور قانون کی محافظ پولیس یا تو ان کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے یا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی افسر قانون کے حساب سے کام کرتا ہے تو حکومت پوری بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ اسی افسر کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔ جیسا کہ ابھی بریلی کے کپتان پولیس کے ساتھ کیا گیا۔ اس افسر نے سختی دکھاتے ہوئے بریلی کو فساد سے بچا لیا۔ اس پر تو اسے پولیس میڈل ملنا چاہئے تھا، مگر یوگی نے اسے سزا دی اور بریلی سے باہر بھیج دیا گیا۔
ملک کی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں بدھوڑی نے جو نیا آغاز کیا ہے، وہ بدلی ہوئی پارلیمنٹ ہی نہیں بلکہ نئے ہندوستان کی بھی عکاس ہے۔ رمیش بدھوڑی کے ذریعہ آر ایس ایس نے پیغام دے دیا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر بھی مسلمانوں کی عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے۔ بدھوڑی نے جو کچھ کہا اور کیا وہ سب ایک بڑی مسلم دشمنی ہی نہیں بلکہ آئینی جمہوریت دشمن سازش کا حصّہ ہے۔ ورنہ اتنی شرمناک حرکت پر ایوان کے لیڈر اور ملک کے وزیر اعظم خاموش نہ رہتے اور اسپیکر محض نوٹس دے کر چپ نہ بیٹھ جاتے۔ معمولی سی بات پر اپوزیشن کے کئی ممبروں کو سسپینڈ کر دیا گیا اور اتنی بڑی بات پر بدھوڑی کے خلاف کارروائی تو درکنار انھیں انعام سے نوازا گیا۔ یہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی نہیں تو اور کیا ہے کہ راجستھان کے مسلم اکثریتی ٹونک اسمبلی حلقہ کا انہیں انچارج بنا دیا گیا۔ قابل تحسین ہیں کرناٹک میں جنتا دال (ایس) کے وہ مسلم لیڈران جنہوں نے بی جے پی سے ہاتھ ملانے پر جنتا دل (ایس) چھوڑ دیا۔ یہ ان کی ملی غیرت کا ثبوت ہے۔
ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے عالمی برادری نابلد نہیں ہے، بھلے ہی شہزادہ سلمان اور دوسرے مسلم حکمران اپنی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے خاموش ہوں۔ یہ جب فلسطینیوں کے نہیں ہوئے تو کسی اور کے کیا ہوں گے۔ لیکن جی-20 میٹنگ میں آئے جو بائڈن نے ہندوستان میں حقوق انسانی کی پامالی، اقلیتوں کے حقوق، پریس کی آزادی کے معاملات اٹھا کر اپنی تشویش ظاہر کر دی ہے۔ جو ہندوستان 2014 تک دنیا کے دوسرے ملکوں کے لیے ایک مثال، ایک نمونہ تھا، اسے اب ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں جو شرمناک اور افسوسناک ہے۔ اسی طرح جو ہندو مذہب دنیا کا سب سے لبرل مذہب سمجھا جاتا ہے، وہ بدترین کٹر پسندی کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔ بھگوان رام کے نام پر وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو ان کی تعلیمات، آدرشوں، اصولوں اور مریاداؤں کے خلاف ہے۔ ہندو مذہب کو اس کے اصل روپ میں بچانے کی ذمہ داری بھی ہندوؤں پر ہی ہے، ورنہ آر ایس ایس نے تو ایک نیا ہندو مذہب رائج کر ہی دیا ہے۔ جیسے ’جے رام، رام رام، جے سیا رام‘ کی جگہ ’جے شری رام‘ نے لے لی، عدم تشدد کی جگہ تشدد نے لے لی، رواداری کی جگہ کٹر پسندی نے لے لی، ویسے ہی سب کچھ بدل جائے گا۔ 2024 میں آخری معرکہ خیر و شر ہونے جا رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔