احتجاج ہو مگر تشدد نہیں… سہیل انجم
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اگر سڑکوں پر اتریں بھی تو ہنگامہ آرائی سے بچیں اور کسی کے خلاف کوئی نعرہ بازی نہ کریں۔ بہت کریں تو ہاتھوں میں تختیاں لے لیں جن پر شاتمان رسولؐ کی گرفتاری کا مطالبہ ہو۔
سب سے پہلے ایک ہندی اخبار کی رپورٹ ملاحظہ کریں۔ ”سہارنپور میں نماز جمعہ کے بعد گھنٹہ گھر پر اکٹھا ہوئے ہجوم میں شامل جن افراد نے تشدد کیا ہے پولیس نے ان لوگوں کی شناخت شروع کر ی ہے۔ پولیس کی جانچ میں انکشاف ہوا ہے کہ کچھ لوگ سیاہ لباس اور نیلی ٹوپی میں تھے۔ یہ لوگ مسجد میں نماز ادا کرنے نہیں گئے۔ مسجد کے باہر کھڑے رہے۔ پولیس کو دستیاب سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق ایسے کچھ عناصر کولڈ ڈرنکس میں شراب ملا کر پیتے ہوئے نظر آئے۔ پولیس نے اب تک اس معاملے میں 48 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ سہارنپور اور دیوبند میں دو سو سے زیادہ افراد کے خلاف الگ الگ مقدمات درج کیے گئے ہیں“۔
یہ خبر گیارہ جون یعنی ہفتے کے ہندی روزنامہ دینک جاگرن کی ہے۔ اس کے مطابق جن لوگوں نے تشد برپا کیا وہ نمازی نہیں تھے بلکہ ان میں سے کئی شرابی تھے۔ ایک جگہ پڑی ہوئی ایک نیلی ٹوپی کی تصویر بھی شائع کی گئی ہے۔ یہ خبر ہمیں سوشل میڈیا پر دکھائی دی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس میں کہاں تک صداقت ہے یا کیا واقعی نمازیوں میں ایسے لوگ گھس آئے تھے جو امن و امان کے دشمن تھے یا جنھوں نے نماز کی ادائیگی کے بجائے شراب نوشی کی اور پھر گھنٹہ گھر پہنچ کر ہنگامہ کیا۔ ممکن ہے کہ یہ باتیں درست ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں کوئی سچائی نہ ہو۔ اس معاملے کی حقیقت جانچ کے بعد ہی سامنے آسکتی ہے۔ لیکن حقیقی جانچ کے بعد نہ کہ دکھاوٹی۔
اس وقت پوری دنیا میں بی جے پی کے دو لیڈروں نپور شرما اور نوین کمار جندل کی جانب سے کی جانے والی اہانت رسول کے خلاف غم و غصہ ہے۔ نپور شرما نے 26 مئی کو توہین آمیز بیان دیا تھا۔ ایک ہفتے تک بی جے پی نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ جب خلیجی ملکوں کی جانب سے احتجاج شروع ہوا اور ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کی خبر آئی تب کہیں جا کر بی جے پی نے دونوں رہنماؤں کو پارٹی سے نکالا۔ اس احتجاج میں دیگر متعدد ممالک بھی شریک ہوتے گئے اور اب مسلم ملکوں اور ان کے اداروں کی تعداد بیس ہو گئی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ تیز ہو گیا۔ مسلمان تو پہلے سے ہی احتجاج کر رہے تھے لیکن احتجاج میں کوئی شدت نہیں تھی اور نہ ہی وہ بڑی تعداد میں سڑکوں پر اترے تھے۔ صرف کانپور میں گزشتہ جمعہ کی نماز کے بعد مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرہ کرنے کی کوشش کی جس پر وہاں تشدد پھوٹ پڑا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ تشدد میں صرف مسلمان ہی قصوروار ہوں۔ دوسرے فریق بھی اس میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دوسرے لوگ دودھ کے دھلے نہیں ہیں۔ لیکن کارروائی صرف مسلمانوں کے خلاف ہو رہی ہے۔ انہی کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور انہی کے مکانوں کو بھی بلڈوزر سے منہدم کیا جا رہا ہے۔
مسلمانوں کو اس صورت حال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انھیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اس وقت اقتدار کی باگ ڈور جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ ان کے دوست نہیں ہیں۔ اگر وہ سڑکوں پر آئیں گے تو ان کے مقابلے میں دوسرے لوگ بھی آئیں گے اور پھر کارروائی صرف مسلمانوں کے خلاف ہوگی۔ کانپور کے حالات کو دیکھ کر مسلمانوں کو بہت احتیاط کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن دوسرے جمعہ کو ملک کی مختلف ریاستوں میں احتجاج ہوا اور کہیں کہیں تشد بھی ہو گیا۔ رانچی میں دو مسلم نوجوانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس کے بعد سہارنپور اور کانپور میں مسلمانوں کے مکانوں پر بلڈوزر بھی چل گئے۔
بلا شبہ جو اہانت رسولؐ کی گئی ہے اس کے خلاف احتجاج کی ضرورت ہے۔ لیکن اس احتجاج میں احتیاط بھی ضروری ہے۔ خاموش احتجاج کیا جانا چاہیے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اگر سڑکوں پر اتریں بھی تو ہنگامہ آرائی سے بچیں اور کسی کے خلاف کوئی نعرہ بازی نہ کریں۔ بہت کریں تو ہاتھوں میں تختیاں لے لیں جن پر شاتمان رسولؐ کی گرفتاری کا مطالبہ ہو۔ لیکن مخالفین کو اس کا موقع نہ دیں کہ وہ ان کے احتجاج کو دوسری جانب موڑ دیں۔ جس ہندی خبر کا حوالہ دیا گیا ہے اس کی صداقت کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جو لوگ دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں سے پریشان ہیں اور ان کی ساکھ خراب ہو رہی ہے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ غیر مسلم نوجوانوں کو ٹوپیاں پہنا کر نمازیوں کی بھیڑ میں شامل کر سکتے ہیں۔ غیر مسلم خواتین کو برقعہ پہنا کر احتجاج میں بھیج سکتے ہیں۔ لہٰذا اس وقت مسلمانوں کو بہت محتاط اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں امن و امان برقرار رکھے۔ لیکن سوائے اس کے کہ دونوں رہنماؤں کو پارٹی سے نکال دیا گیا ہے کوئی اور کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ نکالا بھی جب گیا جب مسلم ملکوں سے احتجاج کی لہر اٹھی۔ حکومت چاہے تو اب بھی اس عالمی احتجاج کو روک سکتی ہے۔ اس کا آسان نسخہ یہ ہے کہ دونوں رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دے۔ اس قدم سے مسلمانوں کا غصہ کافور ہو سکتا ہے اور دنیا بھر میں جو احتجاج ہو رہے ہیں وہ بند ہو سکتے ہیں۔ مذکورہ دونوں رہنما بی جے پی کے عہدے دار رہے ہیں ظاہر ہے جیل میں ان کے ساتھ کوئی غلط سلوک نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ جیل حکام ان کے آرام و آسائش کا پورا خیال رکھیں گے۔ انھیں آسانی سے ضمانت بھی مل سکتی ہے۔ اس لیے حکومت کے لیے اور پورے ملک کے لیے بہتر ہوگا کہ دونوں رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جائے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔