واہ رے وشو گرو! بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟... سہیل انجم

ہندوستان کو اس بات پر فخر کرنا بجا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن اس کو جمہوریت کے تقاضوں کا بھی احساس ہونا چاہیے اور ان کا پاس و لحاظ بھی رکھنا چاہیے۔

ریاستہائے متحدہ امریکہ کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کا لوگو
ریاستہائے متحدہ امریکہ کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کا لوگو
user

سہیل انجم

اگر کسی شخص کو شہرت طلبی کا ہوکا ہو جائے تو پھر اس کے وجود پر بے حسی و بے ضمیری کی موٹی سی تہہ چڑھ جاتی ہے۔ وہ بدنامی کو بھی اپنی نیک نامی تصور کرنے لگتا ہے اور ناکامیوں کو بھی کامیابی گردانتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال ہندوستان کے ’’وشو گرو‘‘ کا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ہونے والے حملوں اور ہندوستان کو ایک جمہوری ملک کے بجائے ہندو ملک بنانے کی کوششوں پر دنیا چیخ رہی ہے لیکن وشو گرو اور ان کے بھکت یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ دنیا ہندوستان کے قصیدے پڑھ رہی ہے۔ اس نے ہماری طاقت مان لی ہے اور 2014 کے بعد اس کو ہماری قوت و صلاحیت کا احساس و ادارک ہو گیا ہے۔

ابھی حال ہی میں امریکہ کی وزارت خارجہ نے ایک بار پھر اپنی سالانہ رپورٹ میں ہندوستان میں اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں پر اظہار تشویش کیا ہے اور کہا ہے کہ 2021 میں پورے سال یہ حملے ہوتے رہے بلکہ ان میں اضافہ بھی دیکھا گیا۔ ابھی دو ماہ قبل ہی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی موجودگی میں واشنگٹن میں ہندوستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ امریکہ ان واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

اب وہاں کی وزارت خارجہ نے دنیا میں مذہبی آزادی سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ امریکی کانگریس کو پیش کر دی ہے۔ اس موقع پر بلنکن نے کہا کہ 2021 میں پورے سال گائے کے نام نہاد محافظوں کی جانب سے گائے کے ذبیحے یا بیف رکھنے اور فروخت کرنے کے الزام میں غیر ہندووں پر حملے ہوتے رہے۔ ہندوستان میں جو کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور جہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں ہم نے اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا ہے۔ جبکہ عالمی مذہبی آزادی سے متعلق امریکہ کے سفیر رشاد حسین نے کہا کہ ہندوستان میں بعض حکام اقلیتوں اور ان کی عبات گاہوں پر ہونے والے حملوں کو یا تو نظرانداز کرتے ہیں یا پھر ان کی حمایت کرتے ہیں۔

رپورٹ میں تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین وضع کیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 28 میں سے10 ریاستوں میں تبدیلی مذہب پر پابندی کے قوانین موجود ہیں۔ جب کہ چار ریاستوں میں شادی کے لیے مبینہ طور پر جبریہ تبدیلی مذہب پر جرمانے کے قوانین ہیں۔ حالانکہ بعض ہائی کورٹوں نے ان قوانین کے تحت عاید الزامات کو خارج کر دیا ہے۔ رپورٹ میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی دکانوں، مکانوں اور عبادت گاہوں پر ہندو قوم پرست گروہوں کی جانب سے ہونے والے حملوں پر اظہار تشویش کیا گیا ہے۔ اس نے گزشتہ سال دسمبر میں ریاست اتراکھنڈ کے ہریدوار میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کا حوالہ دیا اور کہا کہ ایک ہندو قوم پرست یتی نرسنگھانند نے ہندووں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی تھی۔

ہندوستان نے بجائے اس کے کہ اس تشویش کو دور کرنے کی کوشش کرے اسے ناقص معلومات پر مبنی رپورٹ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ اس کا یہاں تک کہنا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں بھی ووٹ بینک کی سیاست کی جا رہی ہے۔ دراصل اس کو ووٹ بینک کی سیاست اس لیے یاد آگئی کہ وہ خود اس میں ملوث ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو شخص خود جیسا ہوتا ہے ویسا ہی وہ دوسروں کی شخصیت میں بھی دیکھتا یا تلاش کرتا ہے۔ ہندوستان کی موجوددہ حکومت کے بارے میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ خود ووٹ بینک کی سیاست میں ملوث رہتی ہے اور جو بھی قدم اٹھاتی ہے اس بات کو سامنے رکھ کر اٹھاتی ہے کہ اس سے اس کو کتنا سیاسی یا انتخابی فائدہ پہنچے گا۔ لہٰذا اس نے امریکہ کی اس رپورٹ میں بھی ووٹ بینک کی سیاست ڈھونڈ لی۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اگر چہ امریکہ کی ایسی رپورٹوں کا یہاں کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ وہ ان کو اپنے معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیتی ہے لیکن ان رپورٹوں سے دنیا بھر میں ہندوستان کی بدنامی تو ہوتی ہی ہے۔ انٹونی بلنکن کے اس جملے میں کتنا گہرا طنز ہے کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور وہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں لیکن اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ہندوستان اس بات پر پھولے نہیں سماتا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، جو کہ ہے، لیکن اس حقیقت کو نظرانداز کر دیتا ہے کہ جمہوریت میں جن اصولوں کو عزیز رکھا جاتا ہے ان کی کس قدر پامالی ہو رہی ہے۔

ہندوستان کو اس بات پر فخر کرنا بجا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن اس کو جمہوریت کے تقاضوں کا بھی احساس ہونا چاہیے اور ان کا پاس و لحاظ بھی رکھنا چاہیے۔ سابقہ حکومتیں اس بات کا بہت خیال رکھتی تھیں کہ کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہیے کہ دنیا میں ہندوستان کی بدنامی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا اسے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتی رہی ہے۔ پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی دور اندیش قیادت رہی ہو یا اندرا گاندھی کی، ہر زمانے میں جمہوری اصولوں کا پاس و لحاظ رکھا جاتا تھا لیکن موجودہ حکومت تو جمہوریت کی دشمن ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ تمام جمہوری اقدار کا مذاق اڑاتی ہے اور ان کو ختم کر دینا چاہتی ہے۔ ابھی حال ہی میں بی جے پی کے ایک لیڈر نے ایک بیان دیا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب ترنگے کی جگہ پر بھگوا جھنڈا لہرایا جائے گا۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اگر کسی شریف آدمی کو بتایا جائے کہ تمھارے اندر یہ خامی ہے تو وہ اپنی اس خامی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اگر کسی غیر شریف آدمی سے اس کی کسی خامی کا تذکرہ کیا جائے اور اسے دور کرنے کو کہا جائے تو وہ اس پر ناراض ہو جاتا ہے اور اس شخص کے اندر ہی خامیاں تلاش کرنے لگتا ہے۔ بالکل یہی حال اس وقت کی ہندوستانی قیادت کا ہے۔ جب امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم ہندوستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں تو ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے دو روز کے بعد ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر ہماری بھی نظر ہے اور ہمیں بھی ان واقعات پر تشویش ہے۔ یہ تو وہی ہوا کہ اچھا تم نے مجھے گالی دی ہے لو میں تمھیں ایک کے بجائے دس گالی دیتا ہوں، کر لو جو کرنا ہو۔

بہرحال ایک طرف دنیا ہندوستان میں اقلیتوں پر ہونے والے حملوں اور ہندو قوم پرست گروہوں کی حرکتوں کی مذمت کر رہی ہے، خواہ وہ عبادت گاہوں پر حملے ہوں یا اب ہر مسجد کو مندر بنانے کی مہم ہو، لیکن حکمراں طبقہ اس مذمت کو بھی تحسین و ستائش سمجھ رہی ہے۔ خود وزیر اعظم نے اپنے عہدے کو کتنا کمتر بنا دیا ہے کہ اب وزیر اعظم کا خوب مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لیکن مذمتی بیانات ہوں یا مذاق اڑانے کی باتیں ہوں، موجودہ حکومت کو بہت اچھی لگتی ہیں۔ کیونکہ ان کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ یہ تعریف و ستائش کے پھول ہیں جو اس کے دامن میں گر رہے ہیں۔

کسی شاعر نے بالکل درست کہا ہے:

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔