پرینکا گاندھی کانگریس کی برہماستر!
کہاں پوری بی جے پی سے اکیلے راہل گاندھی ہی نہیں سنبھل رہے تھے، اب پرینکا گاندھی بھی میدان میں کود پڑیں ہیں۔
بی جے پی والوں پر بسا اوقات ترس آجاتا ہے کہ بیچارے اکثر اپنے ہی کھودے ہوئے کنویں میں گرجاتے ہیں۔ وہ کرنا تو اپنے لیے اچھا چاہتے ہیں لیکن ہوجاتا ہے اس کا الٹا۔ اب یہی دیکھئے کہ راہل گاندھی کو پارلیمنٹ سے نکال کر وہ سمجھ رہے تھے کہ جان بچی سو لاکھوں پائے، اب پارلیمنٹ میں بڑے صاحب کو پانی پی پی کر سینہ نہیں ٹھوکنا پڑے گا لیکن پرینکاگاندھی نے میدان میں اتر کر ان کی ایسی دھجیاں اڑائیں کہ پوری بی جے پی بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوگئی۔ وہ جو بڑے بڑے سورما ٹائپ کے لوگ راہل گاندھی سے معافی مانگنے اور ان پر او بی سی کی توہین کا الزام عائد کرنے کے لیے تعینات کیے گئے تھے، وہ بیچارے معلوم نہیں کس بل میں دبک گئے۔
کل کے ستیہ گرہ میں پرینکا گاندھی کی تقریر سن کر بی جے پی کے لوگ غالباً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اس سے بہتر تو راہل گاندھی کا پارلیمنٹ میں ہونا ہی تھا۔ کم ازکم مائک بند کرکے، ہنگامہ کرکے، ان کو بولنے کا موقع نہ دے کر عزت تو بچالی جاتی تھی۔ میڈیا تو تھا ہی اپنا جو پارلیمنٹ کے تعطل کو حزبِ اختلاف کے سرمنڈھ دیا کرتا تھا۔ لیکن برا ہو اس فیصلے کا جس کے ذریعے راہل گاندھی کو پارلیمنٹ سے نکال کر اب انہیں اور کانگریس کو ایک نادر موقع دے دیا کہ پارلیمنٹ کے سوال اب سڑکوں تک پہنچ گئے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ پرینکا گاندھی بھی میدان میں اترپڑیں۔ کہاں تو پارلیمنٹ میں بی جے پی کی خوفناک اکثریت ایک کو ہی نہیں سنبھال پا رہی تھی اور کہاں اب دو ہوگئے۔ غالباً اسے ہی کہتے ہیں کہ گنگا اشنان کرنے گئے، گھاٹ پر کچھ ایسا پیر پھسلا کہ پیر کے ساتھ کمر میں بھی موچ آگئی۔
اگر غیرجانبداری سے دیکھا جائے تو پرینکا گاندھی کے حملے کا بی جے پی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ویسے تو جواب راہل گاندھی کے سوالوں کا بھی نہیں تھا لیکن اس کو دیش بھکتی کے چادر سے تھوڑی دیر کے لیے ڈھک ضرور دیا جاتا تھا۔ مگر پرینکا گاندھی کے میدان میں کود پڑنے سے تو یہ چادر بھی پھٹ گئی۔ دو روز قبل راہل گاندھی نے شیل کمپنیوں کے 20 ہزارکروڑ روپئے پر بی جے پی سے سوال پوچھا تھا، اپنی تقریر میں پرینکا نے اس سوال کو عوام سے جوڑ دیا۔ انہوں نے یہ کہہ دیا کہ یہ 20 ہزار کروڑ ملک کے عوام کے ہیں جو شیل کمپنیوں کے ذریعے اڈانی کی جھولی میں ڈالے گئے۔ گویا پرینکا گاندھی نے راہل کے اٹھائے گئے سوالات کو سیدھے طور پر عوام سے جوڑ کر کانگریس کی ’ڈرومت‘ مہم میں ان کو حصہ دار بنا دیا۔
جیسا کہ عرض کیا گیا پرینکا گاندھی کے حملوں کا بی جے پی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے، لیکن جواب دے کر لاج تو بچانی ہی تھی۔ سو سب سے پہلے جناب وویک اگنی ہوتری صاحب میدان میں اترے۔ لیکن یہ بیچارے ایسا ہتھیار لے کر آئے کہ خود ہی اس سے گھائل ہوگئے۔ انہوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ پرینکا گاندھی کو کرن جوہر کی فلم میں اداکاری کرنی چاہئے۔ لیکن ان کی ٹوئٹ پر لوگوں نے جس ردعمل کا اظہار کیا وہ پڑھ کر یقیناً ان کی رات کی نیند غائب ہوگئی ہوگی۔ وویک اگنی ہوتری نے جنوری 2013 میں ایک ٹوئٹ کیا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ سیتا نے راون سے معافی مانگی تھی۔ ایک صارف نے ان کے اس ٹوئٹ کا اسکرین شارٹ شیئر کرتے ہوئے انہیں ہی چیلنج کر دیا کہ بتا سیتا نے راون سے کب معافی مانگی تھی۔ یعنی بیچارے تو گئے تھے پرینکا گاندھی کو اداکاری کا مشورہ دینے، خود ہی سوالوں کے بھنور میں پھنس گئے۔
اس کے بعد بی جے پی کے ایک اور مہارتھی امیت مالویہ جی میدان میں کودے۔ لیکن پتہ چلا کہ وہ بھی پہلے ہی وار میں ڈھیر ہوگئے۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ پرینکا گاندھی نے راہل گاندھی کا موازنہ بھگوان رام سے اور نہرو کا موازنہ راجا دشرتھ سے کر دیا جو کروڑوں رام بھکتوں کی توہین ہے۔ ان کے ٹوئٹ پر لوگوں نے کچھ اسکرین شارٹ شیئرکرنے لگ گئے جس میں بی جے پی کے کچھ لیڈروں کے ذریعے مودی جی کو شیوکا اوتار بتایا گیا تھا۔ کیدار تیورای نامی ایک صارف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ”امیت مالویہ کان کھول کر سن، ہندوؤں کو اس بات سے کوئی اعتراض نہیں کہ راہل گاندھی کا موازنہ ایودھیا کے راجا دشرتھ کے بیٹے رام سے کیا گیا ہے۔ کائنات کے سوامی بھگوان شیو ہیں، راجا کا بیٹا بھگوان نہیں ہوتا ہے۔ بھگوان صرف شیو ہے! تیرے جیسے اندھ بھکتوں کو مرچی لگے تو ہم کیا کریں؟“
سچائی یہ ہے کہ پوری بی جے پی کے پاس پرینکا گاندھی کے اس بیان کا کوئی جواب نہیں ہے کہ بھری پارلیمنٹ میں میرے شہید والد، میری ماں اور میرے بھائی کی توہین کی گئی۔ بی جے پی کے پاس پرینکا کی اس للکار کا بھی کوئی جواب نہیں ہے کہ تمام ایجنسیاں ہمارے پیچھے لگا کر جو لوگ سوچتے ہیں کہ ہم ڈر جائیں گے تو وہ غلط ہیں کیونکہ ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔ راہل گاندھی کو پارلیمنٹ سے نکالتے ہوئے غالباً بی جے پی نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ وہ ڈر جائیں گے لیکن پرینکا نے ان کی اس توقع پر ہی پانی پھیر دیا۔ قصہ مختصر یہ کہ پرینکاگاندھی کی شکل میں کانگریس کے برہماستر نے ملک کی سیاست میں ایک ایسا ماحول بن گیا ہے جس نے بی جے پی کی نیند اڑا کر رکھ دی ہے۔ اس ماحول کو اپنے موافق کرنے کے لیے بی جے پی کو اب محنت کرنی پڑے گی لیکن پھر بھی کہا نہیں جاسکتا کہ وہ اس میں کامیاب ہوسکے گی۔
(مضمون میں جو بھی لکھا ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔