شہنشاہیت بنام جمہوریت... سید خرم رضا

راہل گاندھی اور ان کے ہم خیال رہنماؤں نے شہنشاہیت کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دی ہے اور ان کے اس اقدام کی وجہ سے عوام میں ہمت پیدا ہو رہی ہے۔

علامتی تصویر یو این آئی
علامتی تصویر یو این آئی
user

سید خرم رضا

حال ہی میں آکسفیم کی رپورٹ جاری ہوئی تھی جس میں درج تھا کہ کورونا وبا کے دوران سال 2021 میں ہندوستان کے 84 فیصد گھرانوں کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہندوستان میں چالیس مزید اشخاص ارب پتی ہو گئے ہیں۔ یعنی ہندوستان میں ارب پتیوں کی تعداد 102 سے بڑھ کر 142 ہو گئی ہے۔ اس رپورٹ میں دیئے گئے اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے کہ وبا کے دوران اگر کسی کو فائدہ ہوا ہے تو وہ سماج کا امیر ترین طبقہ ہے، اور اگر کوئی طبقہ تباہ و برباد ہوا ہے تو وہ غریب ہے۔

امیر اور غریب کے درمیان کھائی تو بہت پہلے بڑھنا شروع ہو گئی تھی، لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں یہ اپنے شباب پر ہے۔ دراصل سرد جنگ کے خاتمہ اور کمیونزم کے زوال کے بعد سے سرمایہ دارانہ نظام سر چڑھ کر بولنے لگا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اداروں، تنظیموں، سیاسی پارٹیوں اور حکومتوں پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہو گیا۔ اب ادارے اور حکومتیں صرف اورصرف سرمایہ داروں کی رکھیل بن کر کام کرنے لگیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت اور اداروں کا ہر فیصلہ ان سرمایہ داروں کے فائدہ اور نقصان کے حساب سے لیا جانے لگا۔ یعنی عوام اور خاص طور سے غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔


کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے ایوان میں صدر جمہوریہ کے خطاب پر شکریہ تحریک پر بولتے ہوئے جن باتوں کی جانب اشارہ کیا وہ انتہائی سنجیدہ اور اہم تھیں۔ لیکن سرمایہ داروں کے قبضہ والے ذرائع ابلاغ میں، خصوصاً انتخابی شور کے درمیان ان اہم اور سنجیدہ باتوں پر گفتگو نہیں ہوگی۔ راہل گاندھی نے واضح طور پر کہا کہ ہندوستان بدل رہا ہے اور مشاورت و گفتگو کی عدم موجودگی کی وجہ سے نظریۂ ہندوستان کا قتل ہو رہا ہے۔ انہوں نے ’ہندوستان‘ کی تشریح پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان مختلف ریاستوں اور تہذیبوں کا گلدستہ ہے اور ان ریاستوں اور تہذیبوں سے مکالمہ اور بات چیت ہونی چاہئے، نہ کہ ان کے اوپر کوئی مرضی یا فیصلہ تھوپنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دراصل فیصلہ تھوپنے کی تہذیب کو ہی شہنشاہیت کہا جاتا ہے اور بات چیت اور مکالمہ کو جمہوریت کہا جاتا ہے۔

راہل گاندھی نے غریب اور امیر میں برھتے فرق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب دو ہندوستان صاف نظر آ رہے ہیں، ایک غریبوں کا ہندوستان جہاں غریب مزید غریب ہوتا جا رہا ہے، اور ایک امیروں کا ہندوستان جہاں امیر اور امیر ہوتا جا رہا ہے۔ دراصل یہ بڑھتا فرق ہی ہمیں شہنشاہیت کی جانب لے جا رہا ہے جہاں ساری طاقت سرمایہ دار کے پاس سمٹ گئی ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا اور دکھایا جاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے تو ذرائع ابلاغ میں وہی خبر دکھائی جاتی ہے جو اس کے مقصد کے لئے ذہن سازی میں مددگار ثابت ہوتی ہے، اور اس خبر کو ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا جاتا ہے جو اس کے مقاصد کی حصولیابی پر سوال کھڑے کرتی ہے۔


اس سب میں مثبت پہلو یہ ہے کہ اب عوام نے سوال پوچھنے شروع کر دیئے ہیں۔ ویسے تو پوری دنیا میں یہ چلن شروع ہو گیا ہے لیکن ہندوستان میں موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف زیادہ شدت پیدا ہو رہی ہے۔ ہندوستان میں عوام کا غصہ چند سرمایہ داروں کے خلاف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ اس غصہ کا ہمیں اشارہ کسانوں کے احتجاج کی شکل میں نظر آ یا تھا۔ سرمایہ داروں کا سب سے بڑا ہتھیار مذہب اور ذات پات ہے اور اپنے مفاد کے لئے سوال پوچھنا اس کا سب سے بڑا دشمن، لیکن عوام کی خاصی تعداد واپس سوال پوچھنے کی ہمت کرتی نظر آ رہی ہے اور یہ اس تبدیلی کی جانب اشارہ ہے ۔

راہل گاندھی اور ان کے ہم خیال رہنماؤں نے شہنشاہیت کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دی ہے اور ان کے اس اقدام کی وجہ سے عوام میں ہمت پیدا ہو رہی ہے۔ عوام کو احساس ہونے لگا ہے کہ دراصل مذہبی جذبات کی وجہ سے ان کے فلاحی معاملات پیچھے دبتے جا رہے ہیں اور اس کا فائدہ چند امیر گھرانوں کو ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے غریبوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ارب پتیوں کی تعداد میں بھی۔ یعنی کھائی بڑھ رہی ہے۔ عوام کو سمجھ آنے لگا ہے کہ اگر یہ کھائی مزید بڑھ گئی تو انہیں مسجد اور مندر تو مل جائیں گے لیکن بے روزگاری اور مہنگائی سے نجات نہیں ملے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔