مہاراشٹر: تشدد کی آگ پر سیاست کی روٹی... اعظم شہاب
مسلمانوں کے ذریعے جمعہ کو بند کے دوران ہوئے تشدد کے جواب میں امراؤتی شہر میں بی جے پی کے تانڈو کو کسی طور اتفاقی ردعمل نہیں کہا جاسکتا۔
جنوبی ممبئی میں واقع رضا اکیڈمی وآل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کے ذریعے 12؍نومبر کو تریپورہ میں مسلمانوں پر حملے اور شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی کے ذریعے پیغمبرِ اسلامؐ کی توہین کے خلاف کی جانے والی مہاراشٹر بند کی اپیل اس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوجائے گی؟ اس کا اندازہ نہ تو رضا اکیڈمی کے سعید نوری کو رہا ہوگا اور نہ ہی سنی جمعیۃ العلماء کے صدر معین میاں کو۔ ممبئی سمیت مہاراشٹر کے بیشتر مسلم اکثریتی شہروں میں بند نہ صرف پوری طرح کامیاب رہا بلکہ پرامن بھی رہا سوائے تین شہروں مالیگاؤں، ناندیڑ اور امراؤتی کے۔ ان تینوں شہروں میں بند کے دوران سنگ باری وآتش زنی کی کچھ وارداتیں ہوئیں جس پرمقامی پولیس نے فوری طور پر قابو بھی پالیا تھا۔ لیکن بند کے اعلان سے ہی مروڑ میں مبتلا بی جے پی کے لئے تین شہروں میں ہونے والے اس معمولی تشدد سے ایک موقع ہاتھ آگیا اور اس نے بند کے دوسر ے روز یعنی 14؍نومبر کو امراؤتی میں تانڈو مچا دیا۔ وہاں پر تشدد پرآمادہ نوجوانوں کے غول کے غول کے صبح سے ہی متحرک ہوگئے۔ ہاتھوں میں بھگوا رومال لئے، چہرہ ڈھکے ہوئے جئے بھوانی جئے شیواجی کے نعروں کے ساتھ چن چن کرمسلمانوں کی دوکانوں ومکانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں : تریپورہ: کڑوہ سچ اور میٹھا جھوٹ... اعظم شہاب
بی جے پی کی جانب سے اسے جمعہ کے بند کے دوران ہوئی سنگ باری وآتش زنی کی وارداتوں کا ردعمل قراردیا گیا، لیکن امراؤتی تشدد سے قبل بی جے پی کے لیڈروں کے جس طرح کے بیانات سامنے آئے، انہیں دیکھ کر اسے کسی طور اتفاقی ردعمل نہیں کہا جاسکتا۔ 13؍اکتوبر کی شام تک یہ کہا جاتا رہا کہ ایک روز قبل مسلمانوں کے ذریعے کئے جانے والے بند کی مذمت کے طور پر امراؤتی شہر کے لوگوں نے اس بند کا اہتمام کیا تھا، لیکن رات ہوتے ہوتے بلی تھیلے سے باہر آگئی اور ریاستی بی جے پی کے صدر نے یہ اعتراف کرلیا کہ اس کے پسِ پشت بی جے پی کی سیاست کارفرتھی اور وہ سیاست ہندوؤں کو تشدد پر آمادہ کرکے ریاست میں امن وامان کی صورت حال کو بگاڑنے کی تھی۔ ظاہر ہے امن وامان کی ابتری کا راست فائدہ بی جے پی کو ہی حاصل ہونا تھا اور یوں بھی اس طرح کی پرتشدد کارروائیوں کا بی جے پی کو اچھا خاصا تجربہ ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے میں بی جے پی کے لیڈران کا کوئی ثانی بھی نہیں ہے۔ مگر یہاں ریاستی حکومت بھی بی جے پی کی اس سازش سے بے خبر نہیں تھی لہذا ریاستی وزیرداخلہ نے ریاست کے اے ڈی جی کو فوری طور پر امراؤتی روانہ کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : جون ایلیا۔ یکتائے زمانہ شاعر... جمال عباس فہمی
امراؤتی میں بی جے پی کی شرانگیزی کا اندازہ جمعہ کی شب ہی ہوگیا تھا جب سابق وزیراعلیٰ دیوندرفڈنویس نے مسلمانوں کے بند کے دوران ہوئے پرتشدد واقعات کے خلاف حکومت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اپنے مطالبے میں فڈنویس نے خاص طور سے امراؤتی کا تذکرہ کیا تھا اور اس میں بھی مسلمانوں کے ذریعے ہندووں پر حملے کا پہلو خاص طور پر نمایاں تھا۔ جبکہ امراؤتی میں پتھراؤ کی جو واردات ہوئی تھی وہ بہت معمولی تھی اور پولیس نے فوری طور پر حالات پر قابو پالیا تھا۔ فڈنویس نے گوکہ دونوں فرقے کے لوگوں سے امن وامان کی اپیل بھی کی لیکن مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے یہ بھی سوال کیا کہ تریپورہ میں جب مسجد نذرآتش ہی نہیں ہوئی، اس کے خلاف بند کیوں کیا گیا؟ فڈنویس کی اس اپیل کا خاطر خواہ اثر ہوا اور رات میں ہی امراؤتی بی جے پی نے دوسرے روز بند کا اعلان کر دیا اور کہا گیا کہ یہ بند پرامن ہوگا۔ لیکن بی جے پی کا یہ بند کتنا پرامن تھا، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امراؤتی کے ان تمام علاقوں میں جم کر تشدد پربا کیا گیا جہاں مسلمانوں کے مکانات و دوکانیں تھیں۔ بند کے دوران بھگوا تنظیموں کے کارکنان نے راج کمل چوک، نمونہ گلی، چاندنی چوک، اتوارہ اور جئے اسمتھ چوک میں جم کر توڑ پھوڑ اور آتش زنی کی اور وہ بھی پولیس کی موجودگی میں۔ جس کے بعد پورے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا اور انٹرنیٹ خدمات معطل کر دی گئیں۔
جمعہ کے بند کے دوران مالیگاؤں، ناندیڑ وامراؤتی میں جو پرتشدد واقعات رونما ہوئے تھے، رضا اکیڈمی کی جانب سے اس کی فوری طور پرمذمت کی گئی تھی اور حکومت سے شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ رضا اکیڈمی کے جنرل سکریٹری سعید نوری نے کہا تھا کہ ممبئی شہر ومضافات اور ریاست کے دیگر حصوں میں بند پرامن رہا، آخر تین مقامات پر ہی تشدد کیوں ہوا؟ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے قصداً شرپسندی کی۔ اس لئے اس کی ہر پہلو سے تفتیش کی جانی چاہئے اور ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے۔ ریاستی حکومت نے اس کے خلاف کارروائی بھی شروع کردی تھی اور ایف آئی آردرج کرکے لوگوں سے تفتیش وگرفتاری بھی شروع کردی تھی۔ لیکن اگر بات یہیں ختم ہوجاتی تو ریاستی حکومت کو رضا اکیڈمی کی پشت پناہی کے نام پر نشانہ کیسے بنایا جاتا؟ کیونکہ 9 سال قبل 11؍اگست2012 کو ممبئی کے آزاد میدان میں میانمار میں مسلمانوں پر مظالم کے خلاف احتجاج کے دوران جو تشدد پھوٹ پڑا تھا اس میں بھی رضا اکیڈمی کا نام آیا تھا۔ اس وقت ریاست میں کانگریس و این سی پی کی حکومت تھی۔ بی جے پی کے لئے حکومت کو گھیرنے کا ایک موقع ہاتھ آیا تھا جسے وہ اسے کسی قیمت جانے نہیں دینا چاہتی تھی، لہٰذا امراؤتی میں فساد کی منصوبہ بندی کی گئی جو بدقسمتی سے کامیاب رہی۔
یہ بھی پڑھیں : جے این یو میں اے بی وی پی اور بائیں بازو طلبا کے درمیان جھڑپ
فی الوقت امراؤتی میں حالات قابو میں تو ضرور ہیں لیکن کشیدگی ہنوز برقرار ہے۔ وہاں کی پولیس نے بی جے پی لیڈروں کو یا تو شہر میں داخل ہونے سے روک دیا ہے یا پھر انہیں نظربند کر دیا ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر چندرکانت پاٹل نے اعلان کیا کہ ’اب ہندو نہیں سہے گا اتیا چار‘ یعنی کہ اس سے قبل اس پر ظلم ہو رہا تھا۔ مسلمانوں نے جس بند کا اہتمام کیا تھا وہ پاٹل کے مطابق ہندوؤں پر اتیارچار تھا۔ پھر وہی ہوا یعنی ہندو اس اتیاچارکا بدلہ لینے کے لئے سڑکوں پر اترآئے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر اس پورے معاملے کا ٹھیکرا ریاست کی مہاوکاس اگھاڑی حکومت کے سرمنڈھتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے انہیں کھلی چھوٹ دی گئی۔ ان کی ناراضگی اس بات پر تھی کہ بند کیونکر ہوا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تریپورہ میں اگر مسلمانوں پر حملہ ہوا ہے تو تریپورہ میں جاکر وہاں جو ہوسکے کریئے۔ بہرحال اس طرح کی زہریلی بیان بازیوں کا نتیجہ یہ رہا کہ امراؤتی میں فساد پھوٹ پڑا اور یہ فساد منظم تھا۔
شیوسینا کے ایم پی و ترجمان سنجے راؤت نے تو یہاں کہہ دیا کہ امراؤتی میں جو کچھ ہوا وہ بی جے پی کی منصوبہ بند سازش تھی اور وہ اس کے ذریعے ریاستی حکومت کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رضا اکیڈمی کی اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ پوری ریاست میں بند کروا سکے۔ اس کے پیچھے کچھ دوسرے ہی لوگ ہیں۔ فسادیوں کے چہرے جلد بے نقاب ہوں گے۔ فساد برپا کرنے والے کوئی اور ہی ہیں۔ بی جے پی مذہبی منافرت اور فسادات کے بغیر سیاست نہیں کرسکتی۔ یہ مہاراشٹر کو کمزور کرنے کی ایک بڑی منصوبہ بندی ہے۔ ای ڈی، سی بی آئی، انکم ٹیکس وغیرہ کے ذریعے جب حکومت کا کچھ نہیں بگڑ رہا ہے تو اب فساد کی سازش شروع ہوگئی ہے۔ ریاستی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کرنا، لاء اینڈآرڈر بگاڑنا اور پھر گورنر کو میمورنڈم دینے کا کھیل اب پرانا ہوچکا ہے اور ہم اس میں ماہر ہیں۔ بی جے پی لیڈران کی شرانگیزی اور سنجے راؤت کا یہ بیان اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ امراؤتی فساد باقاعدہ کروایا گیا ہے اور اس میں بی جے پی براہِ راست ملوث ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔