جے این یو میں اے بی وی پی اور بائیں بازو طلبا کے درمیان جھڑپ
عینی شاہدین نے بتایا کہ یہ واقعہ اتوار کی رات تقریباً 10 بجے یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے دفتر میں پیش آیا۔ دونوں فریقوں کے ارکان ایک دوسرے پر تشدد شروع کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
نئی دہلی: جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) اور بائیں بازو کی اتحاد آل انڈیا اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن (اے آئی ایس اے) اور اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) کے ارکان کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ جس میں 12 کے قریب طلباء زخمی اور تین دیگر شدید زخمی ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں : جون ایلیا۔ یکتائے زمانہ شاعر... جمال عباس فہمی
طلباء یونین کے ارکان نے یو این آئی کو بتایا کہ تصادم میں شدید زخمی ہونے والوں کا نئی دہلی کے ایمس میں علاج کیا جا رہا ہے۔ اس واقعہ کی باقاعدہ شکایت دہلی پولیس سے کی گئی ہے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ یہ واقعہ اتوار کی رات تقریباً 10 بجے یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے دفتر میں پیش آیا۔ دونوں فریقوں کے ارکان ایک دوسرے پر تشدد شروع کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
اے بی وی پی-جے این یو کے صدر شیوم چورسیا نے کہا کہ جب وہ طلبہ یونین کے دفتر کے اسٹوڈنٹس ایکٹی وٹی سینٹر میں میٹنگ کر رہے تھے تو اے آئی ایس اے اور ایس ایف آئی کے ارکان اندر آئے اور اے بی وی پی طلبہ کو وہاں سے جانے کو کہا۔ انہوں نے یو این آئی کو بتایا کہ’’ہمیں بتایا گیا کہ صرف طلبہ یونین ہی اس جگہ کا استعمال کرسکتی ہے، جو کہ غلط ہے۔ یہ ایکٹی وٹی سینٹر تمام طلباء کے لیے کھلا ہے۔ جب ہم نے اس پر احتجاج کیا تو انہوں نے ہم پر کرسیوں سے حملہ کرنا شروع کر دیا۔ دوسری طرف، جے این یو اسٹوڈنٹس یونین (جے این یو ایس یو) کی صدر آئسہ گھوش نے اے بی وی پی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اے بی وی پی نے تشدد شروع کیا۔
آئسہ گھوش نے کہاکہ "یہ جگہ کسی اور تنظیم کے پروگرام کے لیے پہلے ہی بک کر رکھی تھی۔ اسی دوران اے بی وی پی نے وہاں پہنچ کر اپنی میٹنگ شروع کر دی۔ میں اور جے این یو ایس یو کے دیگر ممبران اس سے بات کرنے کے لیے موقع پر پہنچے۔ جب ہم نے اے بی وی پی کے ارکان سے کہا کہ وہ اپنی میٹنگ کو کسی اور جگہ منتقل کر دیں تو وہ تشدد پر اتر آئے اور بلآخر ہم پر حملہ کر دیا۔ اس دوران ہمارے ایک رکن کو شدید چوٹیں آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جھڑپ میں زخمی ہونے والے بائیں بازو کے اتحاد کے طلباء نے اے بی وی پی کے خلاف باقاعدہ شکایت درج کرائی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔