کمان سلامت تو تیر ہزار!... اعظم شہاب

ایکناتھ شندے دراصل کمان سے نکلا ہوا بے ہدف تیر ہے۔ کمان اگر ادھو ٹھاکرے کے ہاتھ میں ہو تو شندے جیسے کئی تیر مل سکتے ہیں۔

ادھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے، تصویر آئی اے این ایس
ادھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

اس مشہور مثل کہ سر سلامت تو پگڑی ہزار کی مصداق اگرشیوسینا کی پگڑی یعنی کہ کمان ادھو ٹھاکرے کے ہاتھ میں ہو تو انہیں ایکناتھ شندے جیسے ہزار تیر مل جائیں گے۔ بی جے پی جب آمنے سامنے کی جنگ ہار جاتی ہے تو پیچھے سے حملہ کرتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال شیوسینا کے نشان پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دھاندلی پہلے کیوں نہیں ہوئی اور اب کیوں ہوگئی؟ سیاست کی دنیا کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ مہاراشٹر کی صوبائی سرکار سے شیوسینا کو بے دخل کرنے کے بعد بی جے پی کا اگلا ہدف ممبئی میونسپل کا رپوریشن پر قبضہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے بی ایم سی کا بجٹ مہاراشٹر کے بجٹ سے کم نہیں ہے۔ اس کا شمار دنیا کی امیر ترین بلدیاتی اداروں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک سیاسی علامت بھی ہے۔ ایسے میں اس پر قبضہ کرکے پورے صوبے کی عوام کو یہ پیغام دینا بہت آسان ہے کہ ادھو ٹھاکرے اور ان کی شیوسینا کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے۔ اس لیے جن لوگوں کے دل میں بالا صاحب ٹھاکرے سے عقیدت ہے وہ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کو ان کا سیاسی وارث تسلیم کرکے ان کے ہاتھ مضبوط کریں۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر شیواجی پارک پر شیوسینا کی روایتی جلسہ منعقد کرکے وہاں سے ایکناتھ شندے کے خطاب کی سازش رچی گئی جس کو ہائی کورٹ نے ناکام کر دیا۔

شیواجی پارک پر ریلی کی اجازت کے لیے ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیو سینا نے فوری اجازت کی خاطرعدالت سے رجوع کیا۔ اس کا مطالبہ تھا کہ عدالت بی ایم سی کو 22؍ اور 24؍ اگست2022 کی درخواستوں پر جلد فیصلہ کرنے کا حکم دے تاکہ اسے 5؍اکتوبر کو دادر کے شیواجی پارک میں جلسہ کے انعقاد کی تیاریوں میں آسانی ہو۔ بامبے ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ کے جسٹس آر ڈی دھنوکا اور جسٹس کمال کھاٹا کے روبرو عرضداشت میں بتایا گیا کہ 1966ء سے دادر کے شیواجی پارک میں دسہرا ریلی کی جا رہی ہے۔ یہ ہمیشہ کی روایت رہی ہے اس لئے اسے توڑا نہیں جاسکتا۔ ایسے میں یہاں جلسے پر پابندی لگانا غلط ہوگا۔ ادھو ٹھاکرے نے اس تعلق سے اپنا موقف واضح کیا تھا کہ ان کی دسہرہ ریلی شیواجی پارک میں ہی ہوگی۔


شیواجی پارک کی ریلی میں شیوسینا کے کارکنان بغیر کسی دعوت کے جلسہ گاہ میں پہنچ جاتے ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھاکر ایکناتھ شندے اپنی سیاست چمکانا چاہتے تھے لیکن ہائی کورٹ نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ بامبے ہائی کورٹ نے جب ادھو گروپ کو شیواجی پارک میں دسہرا ریلی کرنے کی اجازت دی تو شندے گروپ نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا مگر پھر اس کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا کیونکہ عدالت عظمیٰ میں معاملہ ٹلنے کا امکان تھا اور اس بات شیواجی پارک پر دسہرا ریلی کے منعقد نہ ہونے سے شیوسینکوں کے اندر پیدا ہونے والی ناراضی کا الزام ایکناتھ شندے پر آجاتا۔ ادھو گروپ کے حق میں فیصلہ کے اندر ہائی کورٹ نے ریلی کو لے کر کئی شرائط بھی رکھیں، مثلاً نظامِ قانون بنائے رکھنا ریلی کی ویڈیو ریکارڈنگ اور اگر کوئی ناگوار واردات رونما ہوجائے تو آئندہ کے لیے اجازت کی منسوخی وغیرہ۔ ان شرائط سے قطع نظرعدالت کے فیصلے نے ٹھاکرے گروپ میں خوشی کی لہر دوڑا دی اور وہ اسے کامیاب کرکے وزیر اعلیٰ کو آئینہ دکھانے کی مہم میں جٹ گئے۔ مہاراشٹر میں برسراقتدار ہونے کے باوجود ریلی کے لیے اجازت نہیں ملنا وزیر اعلیٰ شندے کی بہت بڑی شکست تھی۔ اس طرح شندے اور ان کے آقا بی جے پی کی یہ پہلی رسوائی تھی لیکن آگے اور بہت کچھ ہونا ہے۔

شیواجی جینتی کے موقع پر اس بار دو ریلیاں ہوئیں اور ان کے فرق نے یہ بتا دیا شیوسینک کس کے ساتھ ہیں۔ شندے کو توقع تھی کہ بی جے پی والے جوق در جوق آکر جلسہ کامیاب کریں گے لیکن اس نے بھی ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا، شندے کو اپنے جلسہ میں لوگوں کو لانے کے لیے دس کروڑ تو صرف بس پر خرچ کرنے پڑے اور وہ ایسا کرکے رنگے ہاتھ پکڑے گئے۔ اتنی بڑی رقم اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کو نقد دی گئی یہ اپنے آپ میں ایک عجوبہ ہے۔ اس کے باوجود کئی بسیں منسوخ کرنی پڑیں بہت ساری سواریاں جلسہ گاہ سے پہلے ہی اتر کر اپنے رشتے داروں سے ملنے چلی گئیں۔ ان میں بیشتر لوگ سیر سپاٹے کے لیے آرہے تھے۔ ان سے جب نامہ نگاروں نے جلسہ گاہ کا مقام پوچھا تو اس کی بھی انہیں خبر نہیں تھی۔ ان میں سے کئی وزیر اعلیٰ کا نام تک بتا نہیں سکے ْ۔ اس طرح پانچ سو روپیہ دیہاڑی، مفت سفر، ایک وڈاپاو اور دو کٹنگ چائے کے لیے آنے والے شرکاء دوران تقریر بور ہوکر چل پڑے۔ اس طرح یہ ثابت ہوگیا کہ ممبئی میں شندے کو کوئی نہیں پوچھتا اور وہ قریب کے تھانے سے بھی اپنے ہمنواوں کو لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اُدھر شیواجی پارک پر بلا کا جوش تھا اور اس کا سہرہ بھی شندے و بی جے پی کے چیلنج کو ہی جاتا ہے۔


 برسرِ اقتدار جماعت نے اس زبردست ناکامی کے بعد اپنا ’برہماستر‘ استعمال کرنے کی خاطر الیکشن کمیشن کو میدان میں اتارا اور اس کے ذریعہ شیوسینا کے انتخابی نشان 'تیر کمان' کو منجمد کرا دیا ہے۔پچھلے دنوں ممبئی کے اندھیری ایسٹ سے شیوسینا کے رکن اسمبلی کا انتقال ہوگیا اور اب وہاں ضمنی انتخاب ہونے ہیں۔ شیوسینا کے دونوں دھڑے اس الیکشن میں تیر کمان استعمال کرنا چاہتے تھے مگر الیکشن کمیشن نے ایک عبوری حکم میں یہ فیصلہ سنایا کہ کسی بھی گروپ کو اسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ کمیشن نے نیا نشان تجویز کرنے کی خاطر 10؍ اکتوبر تک کی مہلت دی ہے اور ادھو گروپ کی جانب سے ترشول، مشعل یا طلوع ہوتا سورج کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ شندے دراصل کمان سے نکلا ہوا بے ہدف تیر ہے۔ کمان اگر ادھو کے ہاتھ میں ہو تو شندے جیسے کئی تیر مل سکتے ہیں۔ اس لیے بہترین حل یہ ہے کہ کمان ادھو ٹھاکرے اور تیر ایکناتھ شندے کو دے دیا جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔