ملائم سنگھ یادو: جو خواب دیکھا وہ تعبیر کیا!

ایک گمنام شخص کے طور پر زندگی کی شروعات کرنے والے ملائم سنگھ نے اپنی لگن اور محنت سے ہر وہ شئے حاصل کی جس کا انھوں نے خواب دیکھا۔

ملائم سنگھ یادو، تصویر یو این آئی
ملائم سنگھ یادو، تصویر یو این آئی
user

ظفر آغا

عجیب شخصیت تھی ملائم سنگھ یادو۔ اتر پردیش کے ایک گمنام و پسماندہ ضلع میں ملائم ایک چھوٹے سے گھرمیں پیدا ہوئے۔ ظاہر ہے کہ آنکھ کھلتے اور ہوش سنبھالتے ہی غربت کا احساس ہو گیا۔ لیکن پیدائش کے ساتھ ہی ملائم بلندی چھونے کا جذبہ لے کر پیدا ہوئے۔ تبھی تو قیادت یعنی لیڈرشپ  کی صفت قدرت سے ملی۔ خیر، اپنی محبت و لگن سے ایک معمولی سی ٹیچری سے زندگی شروع کی۔ لیکن جلد ہی سیاست کا چسکا لگ گیا۔ ان دنوں پسماندہ ذاتوں کے لوگ عموماً لوہیا وادی سوشلسٹ ہو جاتے تھے۔ چنانچہ ملائم بھی لوہیا کے بھگت اور سوشلسٹ پارٹی سے جڑ گئے۔

کم عمری میں ہی یوپی اسمبلی کے ممبر چن لیے گئے اور بس پھر انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ لوہیا کے بعد ملائم نے چرن سنگھ کا دامن پکڑا اور کئی بار لوک دل کے ایم ایل اے رہے۔ لیکن جب اپنی موت سے تھوڑا قبل چرن سنگھ نے بیٹے اجیت سنگھ کو پارٹی کی صدارت منتقل کرنے کا ارادہ کیا تو ملائم نے بغاوت کر دی۔


چرن سنگھ کی موت کے بعد جلد ہی اپنی ایک پارٹی بنا لی اور یادووں کا دل جیتنے میں لگ گئے۔ ادھر سنہ 1986-87 میں ہندوستانی سیاست نے ایک نئی کروٹ لی۔ وی پی سنگھ نے راجیو گاندھی کے خلاف بغاوت کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے راجہ صاحب ہندوستانی سیاست میں اس وقت کی اپوزیشن کے راجہ بن گئے۔ زمینی سیاست کا اتار چڑھاؤ سمجھنے والے ملائم سمجھ گئے کہ بس اب یہ وی پی سنگھ کا دور ہے۔ ملائم نے جھٹ وی پی سنگھ کا دامن تھام لیا۔ جلد ہی انھوں نے اپنی پارٹی وی پی سنگھ کی پارٹی جنتا دل میں ضم کر دی۔

سنہ 1989 میں جنتا دل مرکز میں نہیں بلکہ اتر پردیش اور بہار میں بھی اقتدار میں آئی۔ اور بس ان دونوں ریاستوں میں دو یادو ستارے سیاست کے افق پر چمکے۔ یوپی میں ملائم سنگھ اور بہار میں لالو پرساد یادو۔ بس یوں سمجھیے تب سے ابھی تک دونوں کی سیاست جاری ہے۔


لیکن ملائم سنگھ نے سنہ 1989 میں بھی وی پی سنگھ کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ ہوا یوں کہ جنتا دل یو پی میں ارون نہرو اور عارف محمد خان نے اجیت سنگھ کو یوپی کا وزیر اعلیٰ بنانے کی ٹھانی۔ ملائم نے بغاوت کر دی اور اعلان کیا کہ وہ اجیت سنگھ کے خلاف پارٹی لیڈرشپ کا چناؤ لڑیں گے۔ صاحب اس چناؤ میں ملائم سنگھ یوپی جنتا دل اسمبلی کے لیڈر چنے گئے اور اس طرح سنہ 1989 میں ہی وہ یوپی کے پہلی بار وزیر اعلیٰ چن لیے گئے۔

مگر کہا نہ کہ وی پی سنگھ سے اسی چناؤ میں ان کی اَن بن ہو گئی۔ انھوں نے مجھ سے خود کہا کہ وی پی سنگھ نے مجھ سے کہا کہ وہ یوپی چیف منسٹری کے لیے ان کا ساتھ دیں گے لیکن اندر اندر اجیت سنگھ کا ساتھ دیا۔ بس وہ دن اور آخر تک ملائم اور وی پی سنگھ کا من مٹاؤ کبھی ختم نہ ہوا۔


اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جیسے جنتا دل میں توڑ پھوڑ ہوئی، ملائم نے جنتا دل کا ساتھ چھوڑ خود اپنی سماجوادی پارٹی قائم کر لی اور یوپی میں اپنی سرکار کانگریس کی مدد سے بچا لی۔ لیکن ملائم کسی بڑے لیڈر کے ساتھ زیادہ نہیں ٹکے۔ یوپی اسمبلی تحلیل کر وہاں مڈ ٹرم چناؤ کروا دیئے۔

ملائم سنگھ کا یہ پانسہ صحیح نہیں پڑا۔ اب اتر پردیش میں بی جے پی کی سرکار بنی اور ایک دوسرے پسماندہ لیڈر کلیان سنگھ کا عروج ہوا۔ مگر ملائم اب سیاست میں منجھ چکے تھے۔ سنہ 1992 میں بابری مسجد گری۔ اس سے پہلے ملائم نے اپنی حکومت کے دور میں کارسیوکوں پر گولی چلوا دی تھی۔ اس طرح انھوں نے اپنی پارٹی کے حق میں مسلم-یادو (ایم وائی) ووٹ بینک محفوظ کر لیا تھا۔ ادھر کلیان سنگھ کی حکومت کو مرکز نے تحلیل کر یوپی میں سنہ 1993 میں چناؤ کا اعلان کر دیا۔


ذرا سوچیے سنہ 1992 میں ایودھیا میں بابری مسجد گری، سارا اتر پردیش کا ہندو 'رام مئے' ہو گیا۔ ایسے میں چناؤ کا اعلان ہوا۔ اب ملائم سنگھ نے کانشی رام کی بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ اتحاد کر یوپی میں ایک نیا سماجی اتحاد یعنی پسماندہ ذاتیں، مسلم اور دلت کا پلیٹ فارم بنایا۔ بابری مسجد گروا کر بھی بی جے پی یہ چناؤ ہار گئی اور ملائم پھر یوپی کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اب وہ صرف وزیر اعلیٰ ہی نہیں بلکہ یوپی کے مسلمانوں کے ہر دلعزیز لیڈر بھی ہو گئے۔ تب ہی سے ان کو 'ملا ملائم' کا لقب دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے لیے جو کچھ ملائم نے اپنے دور میں کیا وہ دوسرا کوئی وزیر اعلیٰ نہیں کر سکا۔

جب مرکز میں کانگریس کی مدد سے سنہ 1996 کی دیوگوڑا سرکار بنی تو ملائم اس حکومت میں وزیر دفاع ہوئے۔ اس طرح یوپی کا یہ سماجوادی اب مرکز کا بھی پلیئر ہو گیا۔ لیکن ملائم سنگھ نے جس کا دامن پکڑا، وقت پڑنے پر اس کا دامن جھٹکا بھی۔ چنانچہ جب دیوگوڑا کی حکومت گری تو ملائم نے سونیا گاندھی کو وزیر اعظم بننے سے روک دیا۔


لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ملائم سنگھ نے ایم وائی ووٹ بینک بنا کر تقریباً تین دہائیوں تک اتر پردیش میں بی جے پی کے پیر نہیں جمنے دیئے۔ آخر میں ان کی خواہش یہ تھی کہ بیٹے اکھلیش یادو، جس کو وہ پیار سے ٹیپو کہتے تھے، اس کو یوپی کا وزیر اعلیٰ بنوا دیں۔ ان کی یہ بھی خواہش بھی پوری ہوئی اور بیٹا ٹیپو ان کی زندگی میں دو بار یوپی کا وزیر اعلیٰ رہا۔

ایک گمنام شخص کے طور پر زندگی کی شروعات کرنے والے ملائم سنگھ نے اپنی لگن اور محنت سے ہر وہ شئے حاصل کی جس کا انھوں نے خواب دیکھا۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ ہوئے، مرکز کے وزیر رہے، مرکزی سرکار کے بنانے اور بگاڑنے میں رول رہا۔ آخر بیٹے کو گدی پر بیٹھایا اور ایک انتہائی کامیاب زندگی گزار کر 82 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

تھے نا عجیب شخص ملائم سنگھ یادو جس نے اپنی شرطوں پر اپنی زندگی گزار دی!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔