بھارت جوڑو یاترا: پیغام محبت اور پیغام نفرت کا تصادم... ظفر آغا
راہل گاندھی کا پیغام محبت اگر لوگوں کے دلوں کو چھو گیا تو بی جے پی کی چھٹی! کیونکہ راہل کے بالمقابل مودی کا پیغام نفرت ہے اور وہ مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلا کر ووٹروں میں خوف پیدا کرتے ہیں
آپ اوپر جو تصویر دیکھ رہے ہیں، اس نے پتھر دلوں کو بھی پگھلا دیا۔ راہل گاندھی کے بڑے سے بڑے ناقد اور دشمن بھی اس تصویر کو دیکھ کر پگھل گئے۔ اس تصویر کا کمال صرف یہ نہیں کہ اس سے راہل کی اپنی ماں کے تئیں محبت کا اظہار ہو رہا ہے، بلکہ یہ تصویر راہل گاندھی کے معصوم کردار کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ میدان سیاست جو مکاروں سے بھرا پڑا ہے، اس میں راہل جیسے بھولے اور معصوم انسان کے لیے عوام میں ہمدردی پیدا ہونا فطری ہے۔ ظاہر ہے کہ اس بات سے بی جے پی میں تو ہلچل مچ گئی ہوگی۔ کیونکہ جو پارٹی ہر روز ہزاروں کروڑ روپے راہل گاندھی کو بدنام کرنے پر خرچ کرتی ہو، ایک تصویر اس کے پروپیگنڈے کو ناکام کر دے، اس کے لیے یہ پریشان کن بات ہے۔ لیکن بات محض اس تصویر کی نہیں ہے۔ بی جے پی کے لیے اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ جیسے جیسے ’بھارت جوڑو یاترا‘ آگے بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے عوام جوق در جوق راہل کی اس یاترا سے جڑتے جا رہے ہیں۔
راہل گاندھی کا پیغام محض محبت اور عوامی ہم آہنگی ہے۔ اگر یہ پیغام عام ہندوستانی کے دلوں کو چھو گیا تو بی جے پی کی چھٹی۔ کیونکہ راہل کے بالمقابل مودی کا پیغام نفرت ہے۔ نریندر مودی مسلمانوں کے خلاف منافرت کا ماحول پیدا کر ووٹر کے دلوں میں بے وجہ خوف پیدا کرتے ہیں۔ اس خوف کے ماحول میں وہ اپنی چھپن انچ کی چھاتی کے ساتھ ’ہندو محافظ‘ کا روپ دھارن کر چناؤ جیت لیتے ہیں۔ سنہ 2014 سے اب تک ملک میں یہی سیاست محض چل ہی نہیں رہی بلکہ پوری طرح کامیاب بھی ہے۔
اس ماحول میں ایک نوجوان پورے ملک میں گھوم گھوم کر لوگوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ڈرو مت، تمھارا دشمن کوئی قوم اور کوئی فرقہ نہیں ہے۔ تمھاری اصل دشمن تمھاری بھوک، تمھاری بے روزگاری اور تمھاری لاچاری ہے۔ اس بھوک اور بے روزگاری کا نہ تو کوئی دھرم ہے اور نہ ہی کوئی ذات ہے۔ بھوک اور بے روزگاری نہ تو ہندو ہے اور نہ ہی مسلمان ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو ہر ہندوستانی کو آج سب سے زیادہ پریشان کر رہا ہے۔ اس لیے وقت کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ تم چاہے ہندو ہو اور چاہے مسلمان، یا تم اونچی ذات کے ہو یا کسی چھوٹی ذات سے ہو، تم سب کو آپس میں جڑنے کی ضرورت ہے۔ تم اگر آپسی نفرت اور خوف توڑ کر آپس میں جڑ گئے تو تم ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی ہندوستان بھی مضبوط ہوگا۔ اسی لیے راہل گاندھی سڑکوں پر ہزاروں میل پیدل چل کر بھارت جوڑو یاترا کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرا یہ پیغام محبت ہر مرد، ہر عورت، ہر نوجوان، ہر امیر و غریب اور ہر مذہب کے ماننے والے اور ہر ذات کے شخص کے لیے ہے۔ تم سب اس لیے اس ’بھارت جوڑو یاترا‘ میں میرے ہم سفر بن جاؤ، اور پھر دیکھو تم خود کو کتنا مضبوط محسوس کرتے ہو اور تمھارے آپس میں جڑ جانے سے بھارت کتنا مضبوط ہوتا ہے۔ یہی کل نچوڑ ہے راہل کی بھارت جوڑو یاترا کا۔
بی جے پی کی مشکل یہ ہے کہ راہل گاندھی کا یہ پیغام محبت لوگوں کے دلوں کو چھوتا نظر آ رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو گھبرائی ہندوتوا طاقتیں کبھی گربا میں گڑبڑی تو کبھی کرناٹک کی مسجد اور مدرسہ میں گھس کر پوجا کرنے کی کوشش جیسے ہنگامے بپا نہ کرتیں۔ یہ تمام واقعات اس بات کی دلیل ہے کہ ہندوتوا گھرانے میں بے چینی ہے۔ گجرات اور کرناٹک میں جلد اسمبلی چناؤ ہے۔ اگر ان صوبوں میں نفرت کی ’اسموک اسکرین‘ ٹوٹ گئی تو چناؤ ہاتھوں سے نکل جائے۔ اسی گھبراہٹ میں گربا کی گڑبڑی اور مسجد میں گھس کر پوجا جیسے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ یہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ جیسے جیسے راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا آگے بڑھے گی اور راہل گاندھی کا پیغام محبت جتنا تیزی سے پھیلے گا ویسے ویسے بھارت توڑو یاترا بھی تیز تر ہوگی۔
اس لیے راہل گاندھی کی یہ بھارت جوڑو یاترا اب محض کوئی کانگریس پارٹی کا ایک پروگرام نہیں رہا، بلکہ یہ یاترا ہر اس ہندوستان کی یاترا ہوگی جو ہندوستان کو جوڑنا چاہتا ہے، اور جو خود اپنے مسائل حل کرنا چاہتا ہے۔ آئے دن اس یاترا میں بڑھتی بھیڑ اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ راہل کا پیغام محبت پھیل رہا ہے اور لوگ اس یاترا سے جڑ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بی جے پی کی ’بھارت توڑو یاترا‘ کا ایک انتہائی کارگر جواب ثابت ہو رہی ہے۔ اس لیے جہاں جہاں راہل گاندھی کی یہ یاترا پہنچ رہی ہے، وہاں وہاں پہلے سے اس مقام کی ان دوسری سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کو جو بی جے پی مخالف ہیں، اس یاترا سے جڑنا چاہیے۔ صرف سیاسی افراد ہی نہیں بلکہ سماجی کارکنان کو راہل کی اس یاترا کو کامیاب کرنا چاہیے۔ ملک ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ سنہ 1947 میں ملک کا بٹوارا ہوا تھا اور چہار سو نفرت کا سیلاب بہہ نکلا تھا۔ اس وقت گاندھی جی اور جواہر لال نہرو نے اس سیلاب کو روکا تھا۔ راہل گاندھی کوئی گاندھی یا نہرو تو نہیں ہیں لیکن ان کی نیت بھی وہی ہے جو ہمارے ان بزرگوں کی تھی۔ اس وقت ہندوستان میں دلوں اور سماج کا بٹوارا ہو رہا ہے جو ملک کو کمزور کر رہا ہے۔ اس کو روکنے کے لیے دلوں اور سماج کو جوڑنے کی ضرورت ہے۔ راہل گاندھی اسی پیغام کے ساتھ بھارت جوڑو یاترا پر نکل پڑے ہیں۔ اس یاترا میں عوام کی بڑھتی بھیڑ اس بات کو بتا رہی ہے کہ ان کی یاترا اور پیغام محبت کامیاب ہو رہا ہے، جب کہ بھارت توڑو یاترا کمزور پڑ رہی ہے۔ یہی اس وقت ہندوستان کی ضرورت بھی ہے۔ اگر راہل گاندھی اپنے سفر میں کامیاب ہوتے ہیں تو یوں سمجھیے کہ ہر ہندوستانی ہی نہیں بلکہ پورا ہندوستان کامیاب اور مضبوط ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Oct 2022, 11:11 AM