کیا عوامی تحریکوں کا دور ختم ہوجائے گا؟... سید خرم رضا
اگریہ کسان تحریک بغیر حل کے ختم ہوگئی تو پھر نہیں لگتا کہ آنے والے دنوں میں عوام اپنے مطالبات کو لے کر سڑکوں پر آئیں گے اور پھر تمام فیصلہ بند کمروں میں کچھ لوگوں کے حساب سے کر لئے جائیں گے۔
جامعہ ملیہ تشدد، شاہین باغ مظاہرہ، مشرقی دہلی فسادات، لاک ڈاؤن میں غریب مزدوروں کی شہروں سے اپنے گاؤں کی جانب ہجرت، معیشت کا برا حال، کسانوں کا دہلی کی سرحدوں پر ٹھٹھرتی ٹھنڈ میں احتجاج، ٹریکٹر پریڈ، لال قلعہ اور دہلی کے کئی علاقوں میں مظاہرین کا ہنگامہ اور اب پولیس کارروائی۔ ویسے تو حکومت سے سوال بہت کیے جاسکتے ہیں، لیکن آپ ایسی حکومت سے کیسے سوال کر سکتے ہیں جس کو ملک کی اکثریت نے اپنے بھلے اور بہتر مستقبل کے لئے منتخب کیا ہو۔ جب ملک کے عوام نے بھر پور اکثریت کے ساتھ حکومت کو منتخب کیا ہے تو پھر سوال کرنے والے تو اس حزب اختلاف کے دائرے میں سمٹ کر رہ جاتے ہیں جن کا کام ہی حکومت کا اختلاف کرنا ہے اور آج کے دور میں حزب اختلاف کا سیدھا مطلب ملک دشمن ہے۔
بہرحال 26 جنوری کو کسانوں نے جو ٹریکٹر پریڈ نکالی وہ اپنے آپ میں تاریخی نظر آ رہی تھی۔ صبح جو تاریخی نظر آرہی تھی یا جمہوریت کی ایک مثال ہیش کر رہی تھی وہ شام ہوتے ہی جمہوریت پر ایک بدنما داغ کی شکل میں تبدیل ہوگئی۔ جیسے ہی تشدد کی خبریں ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے لگیں، تقریباً سبھی چینلوں پر ٹریکٹر پریڈ کی گھنونی تصویر پیش کی جانے لگی۔ کسان رہنما بیک فٹ پر نظر آنے لگے اور کچھ نے سارے معاملہ پر شرمندگی کا اظہار بھی کر دیا۔
اس سب کے بعد پنجابی اداکار دیپ سدھو اور لکھاسدھانا کا نام آنے لگا۔ سوشل میڈیا میں یہ خبر عام ہوگئی کہ ان دونوں کی ٹیم کے لوگ ہی لال قلعہ اور دیگر مقامات پر تشدد کے لئے ذمہ دار تھے۔ اس کے بعد دیپ سدھو جن کو بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور اداکار سنی دیول کا قریبی بتایا جاتا ہے انہوں نےلال قلعہ کے سارے معاملہ کو ایک طریقہ سے جائز ٹھہراتے ہوئے اپنا ویڈیو پیغام جاری کر دیا۔ سنی دیول نے سوشل میڈیا کے ذریعہ پیغام دیا کہ ان کا دیپ سدھو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اب کسان تحریک کے خلاف پولیس کا ایکشن جاری ہے، بہت ممکن ہے کہ پوری تحریک اب دم توڑ دے اور لوگوں کو گھر جانے پر مجبور ہونا پڑے۔ شائد اس کے بعد نئے زرعی قوانین کے خلاف کوئی آواز بھی نہ اٹھے، شائد چند لوگوں کے ہاتھوں اور چند لوگوں کی وجہ سے جمہوریت کی شکست بھی ہوجائے۔
اس تحریک کے ختم ہونے کا مطلب ہندوستان میں عوامی تحریکوں کا خاتمہ ہی تصور کیا جائے گا اور ایسا ہونے کا سیدھا مطلب جمہوریت کی حفاظت کے لئے راستے کا مزید تنگ ہونا ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ ان کسانوں کو دشمن تصور نہ کر کے اور ان کی تحریک کو کچلنے کے بجائے ان میں اعتماد پیدا کیا جاتا، تاکہ جب کسان گھر جائیں تو حکومت مخالف جذبہ اپنے سینے میں لے کر نہ جائیں۔ حکومت کہ اس عمل سے بیرون ملک دشمنوں کو سبق سکھایا جاسکتا تھا۔
اگر ملک کا ایک بڑا طبقہ کسی بھی حکومت کے خلاف دل میں نفرت پال لیتا ہے تو وہ ملک کے لئے اچھا نہیں ہوتا۔ جمہوریت اور اچھی حکومت کے لئے عوامی تحریکیں بہت ضروری ہیں، ان کو کچلنے کے لئے طاقت صرف نہیں کرنی چاہیے، بلکہ ان کا دل جیتنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگریہ کسان تحریک بغیر حل کے ختم ہوگئی تو پھر نہیں لگتا کہ آنے والے دنوں میں عوام اپنے مطالبات کو لے کر سڑکوں پر آئیں گے اور پھر تمام فیصلہ بند کمروں میں کچھ لوگوں کے حساب سے کر لئے جائیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Jan 2021, 1:11 PM