چمکور صاحب سے گراؤنڈ رپورٹ: گمنام اسمبلی سیٹ کو چنّی نے بخشی شہرت دوام
پنجاب کے 117 اسمبلی حلقوں میں سے 69 سیٹیں سمیٹے مالوہ واقع روپ نگر ضلع کے چمکور صاحب کی سیاسی اہمیت کا اندازہ یہاں کے ووٹروں کو بخوبی ہے، انھیں معلوم ہے کہ وزیر اعلیٰ چنّی کی جیت کے معنیٰ کیا ہوں گے۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ پنجاب کے اقتدار کا راستہ مالوہ سے ہو کر جاتا ہے۔ اسی مالوہ کے ایک گوشے میں واقع اور دوآبہ کا دروازہ کھولنے والا اور سکھ تاریخ میں بے حد پاکیزہ مقام کا درجہ رکھنے والا چمکور صاحب اسمبلی حلقہ اس بار سرخیوں میں ہے۔ مذہبی طور پر بے حد اہم، لیکن سیاسی طور پر ایک گمنام اسمبلی حلقہ کے شہرت دوام حاصل کرنے کی وجہ بنے ہیں پنجاب کے 16ویں وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لینے والے چرنجیت سنگھ چنّی۔ اس ایک وجہ نے بے حد عام اور چھوٹے سے قصبے چمکور صاحب کو ملک کے سیاسی نقشہ پر اہم بنا دیا ہے۔ یہی بات اس انتخاب میں تقریباً پونے دو لاکھ ووٹروں والے اس حلقہ کے باشندوں کو ترقی کے نقشہ پر خاص مقام بنانے کا خواب دکھا رہی ہے۔
چمکور صاحب کے بارے میں ایک شاعر اللہ یار خاں جوگی نے کہا ہے کہ ’’چمک ہے مہر کی چمکور تیرے ذروں میں، یہیں سے بن کے ستارے گئے آسماں کے لیے۔‘‘ یہ بات آج بھی بالکل سچ ثابت ہو رہی ہے۔ شہیدوں کی زمین چمکور صاحب میں آج سے تقریباً 300 سال قبل 1704 میں گرو گووند سنگھ جی کے بڑے صاحبزادوں بابا اجیت سنگھ اور بابا ججھار سنگھ کے علاوہ تینوں بھائی محکم سنگھ، ہمت سنگھ، صاحب سنگھ کے ساتھ 40 لوگوں کی مغلوں سے لڑتے ہوئے شہادت کی یاد کو سنجوئے گرودوارہ شری قتل گڑھ صاحب پہنچتے ہی اس جگہ کی پاکیزگی اور مذہبی اہمیت کا احساس ہو جاتا ہے۔ لیکن چند مہینے پہلے سے سیاسی طور پر اچانک اہم ہو گئے چمکور صاحب کی ہوا سے بھی اس اہمیت کا احساس کیا جا سکتا ہے۔
پنجاب کے 117 اسمبلی حلقوں میں سے 69 سیٹیں اپنے آنچل میں سمیٹے مالوہ کے روپ نگر ضلع میں چمکور صاحب کی سیاسی اہمیت کا اندازہ اس اسمبلی انتخاب میں یہاں کے ووٹروں کو بھی بخوبی ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ یہاں سے تیسری بار رکن اسمبلی بننے کے لیے انتخاب لڑ رہے وزیر اعلیٰ چرنجیت سنگھ چنّی کی جیت کے معنیٰ کیا ہوں گے۔
تبھی تو گرودوارہ قتل گڑھ صاحب کے بازار میں کپڑے کی دکان چلا رہے گروندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’کسی کو بھی وزیر اعلیٰ سے چھوٹی موٹی شکایت بے شک ہو سکتی ہے، لیکن انھوں نے یہاں کے لیے بہت کام کیے ہیں۔ انھوں نے زیر التوا پڑے سبھی پروجیکٹ پورے کروائے ہیں۔ یہ بازار آپ دیکھ رہے ہیں، اس کی سجاوٹ انھوں نے کروائی ہے۔ یونیورسٹی تعمیر ہو رہی ہے۔ انھوں نے چمکور صاحب کے لیے ’تھیم پارک‘ دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کسی کو کبھی تنگ نہیں کیا۔‘‘ ان کی منکسر المزاجی کے قائل گروندر اس بار ان کے جیتنے پر چمکور صاحب کا نقشہ بدلنے کا خواب سنجوئے ہوئے ہیں۔
گرودوارہ شری قتل گڑھ صاحب بازار میں ہی جنرل اسٹور چلا رہے امرت پال سنگھ کہتے ہیں کہ ’’ہمارے گھر کا پہلے بجلی کا بل تقریباً دو ہزار روپے آتا تھا۔ چنّی جی کی وجہ سے یہ صفر ہو گیا ہے۔ پانی کا بل 100 روپے کے آس پاس آتا تھا، وہ بھی صفر ہو گیا۔ ایک وزیر اعلیٰ اور کیا کر سکتا ہے۔‘‘ وہیں دکان میں موجود دلبندر کور نے سیاسی پارٹیوں سے مایوسی ظاہر کرنے کے باوجود امرتپال سنگھ کی بات پر اتفاق کا اظہار کیا۔ گنے کا رس بیچ رہے ستنام سنگھ بات کرنے پر حکومتوں کو خوب کھری کھوٹی سناتے ہیں، لیکن وزیر اعلیٰ چنّی کے جیتنے پر چمکور صاحب کی قسمت بدلنے کو لے کر اتفاق ظاہر کرتے ہیں۔
چمکور صاحب قصبہ میں ہی ایک جگہ بیٹھے سابق سرپنچ اوتار سنگھ، انہی کے نام والے منجیت پورہ کے سابق سرپنچ اوتار سنگھ، خان کے اجاگر سنگھ اور پنچایت رکن جگپال سنگھ کا کہنا تھا کہ علاقے کی سڑکیں بن رہی ہیں۔ چنّی نے آئی ٹی آئی دیا ہے۔ ستلج دریا کا پل اور تھیم پارک دیا۔ چمکور صاحب بازار میں شہر کی سجاوٹ کی ہے۔ یہاں کے گاؤں کی ترقی کے لیے اتنا پیسہ دیا جتنا پہلے کبھی نہیں ملا۔ یہاں واقع 30 بستروں کے اسپتال کو 100 بستر والا بنا دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس علاقے میں واقع تقریباً 100 گاؤں میں سے ہر ایک میں انھوں نے کچھ نہ کچھ کیا ہے۔ علاقے کا نمائندہ اور کیا کر سکتا ہے۔
وہاں سے تھوڑا آگے بڑھنے پر چمکور صاحب کے کافی بڑے اور نئے بس اڈے کی تیز رفتاری کے ساتھ ہو رہی تعمیر کو دیکھ کر ان کی بات کی تصدیق بھی ہو جاتی ہے۔ چمکور صاحب سے تقریباً 11 کلومیٹر دور گاؤں کلارا میں کھیت میں کام کر رہے کسان اقبال سنگھ علاقے میں ترقی کی بات پر کہتے ہیں کہ دیکھو ڈبل روڈ بن رہی ہے۔ چنّی کے بے حد عام ہونے کی بات کہتے ہوئے اقبال سنگھ کہتے ہیں کہ وہ جب آتے ہیں نریگا کے کام کو خود چیک کرتے ہیں۔ مزدوروں سے مل کر خود بات کرتے ہیں۔ گاؤں کی زبان میں وہ کہتے ہیں کہ چنّی کام کرنے والا بندہ ہے۔
یہاں شرومنی اکالی دل کی بات کرنے پر سابق سرپنچ اوتار سنگھ کہتے ہیں کہ سب سے طویل مدت تک یہاں سے اس پارٹی سے رکن اسمبلی رہی ستونت کور کو ہم نے 1977، 1980، 1997 اور 2002 میں چار بار جتایا، لیکن انھوں نے اس علاقے کو کیا دیا ہے؟ بادل فیملی پر یہاں اس بات کو لے کر بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ پنتھک پارٹی ہونے کا دعویٰ کرنے والے اکالی دل نے پنتھک سیٹ ہونے کے باوجود آخر چمکور صاحب کو کیوں چھوڑ دیا۔ اس بار اسمبلی انتخاب میں اکالی دل نے یہ سیٹ بی ایس پی کو دے دی ہے۔
کیپٹن امرندر کو لے کر تو لوگ یہاں بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ کیپٹن کو جھوٹا بندہ قرار دیتے ہوئے لوگ کہتے ہیں کہ اب یقین کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی میں نظر آ رہے مقابلے کے درمیان یہ سیٹ انتہائی دلچسپ ہو گئی ہے۔ چنڈی گڑھ سے تقریباً 70 کلومیٹر دور چمکور صاحب جاتے ہوئے بالکل بھی احساس نہیں ہوتا کہ ہم کسی وی آئی پی ہو چکے علاقے میں جا رہے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے چمکور صاحب کے پاس پہنچتے ہیں، یہاں کی پرسکون ہوا بھی کچھ خاص ہونے کا احساس خود بہ خود کرانے لگتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔