حکومت کو برج بھوشن معاملے پر لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں!...سہیل انجم

مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر برج بھوشن کو گرفتار نہیں کیا گیا تو بی جے پی کو کہیں زیادہ نقصان اٹھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

<div class="paragraphs"><p>سربراہ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا برج بھوشن شرن سنگھ اور مظاہرین کو گھسیٹ کر لے جاتی پولیس / Getty Images</p></div>

سربراہ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا برج بھوشن شرن سنگھ اور مظاہرین کو گھسیٹ کر لے جاتی پولیس / Getty Images

user

سہیل انجم

کہتے ہیں کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ کیا امیر کیا غریب۔ کیا کمزور کیا طاقتور۔ کیا مرد کیا عورت۔ لیکن کیا واقعتاً ایسا ہے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ قانون امیر کے لیے الگ ہے اور غریب کے لیے الگ۔ حکمراں طبقے کے لیے الگ ہے اور محکوم کے لیے الگ۔ حالانکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں سب برابر ہوتے ہیں۔ کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔ لیکن اسی جمہوریت میں قانون ایک جیسے جرم میں غریب کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیتا ہے اور طاقتور کو چھونے کی بھی ہمت نہیں کر پاتا۔ اس سے قبل کئی ماہرین قانون بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان میں امیروں کے لیے الگ قانون ہے غریبوں کے لیے الگ۔

اگر ہماری بات پر آپ کو شبہ ہو تو اس وقت کے سب سے بڑے اور اہم معاملے کو دیکھ لیجیے آپ کو یقین آجائے گا۔ اس وقت کا سب سے برننگ ایشو اگر کوئی ہے تو وہ خاتون پہلوانوں کی جانب سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور کشتی فیڈریشن کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف احتجاج ہے۔ برج بھوشن پر الزام ہے کہ انھوں نے ان خاتون پہلوانوں کا جنسی استحصال کیا ہے۔ جنسی ہراسانی کی ہے۔ ان کے ساتھ انتہائی بے ہودہ اور گھناونی حرکتیں کی ہیں۔ اس سلسلے میں دہلی کے کناٹ پلیس تھانے میں چھ خاتون پہلوانوں نے جو ایف آئی آر لکھوائی ہیں وہ بڑی سنسنی خیز ہیں۔ ان میں ان پہلوانوں نے کھول کھول کر ساری باتیں درج کرا دی ہیں جن کو پڑھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ایک شخص ایسی حرکتیں بھی کر سکتا ہے۔ انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے ایف آئی آر کو لفظ بہ لفظ شائع کر دیا ہے۔ اس کو پڑھ کر ایسا نہیں لگتا کہ ہم حقیقی واقعات پڑھ رہے ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی فلمی کہانی ہے۔ ایف آئی آر میں برج بھوشن پر لگائے جانے والے الزامات کی جو تفصیل پیش کی گئی تہذیب و شائستگی اس کو دوہرانے کی اجازت نہیں دے رہی۔


یہ ہم دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ الزامات یا ان کا دسواں حصہ بھی کسی دوسرے ایسے شخص کے خلاف لگائے گئے ہوتے جو بی جے پی کا ایم پی نہیں ہوتا یا جو اتنا طاقتور نہیں ہوتا یا جو اپوزیشن کا کوئی لیڈر ہوتا یا پھر عام شہری ہوتا تو فوری طور پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہوتا۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ برج بھوشن کے خلاف الزامات لگانے والوں میں ایک نابالغ خاتون پہلوان بھی ہے۔ لہٰذا برج بھوشن کے خلاف پوکسو قانون کا نفاذ کیا گیا ہے۔ پوکسو قانون میں فوری گرفتاری ہوتی ہے اور جلد ضمانت نہیں ہوتی۔ یہ بہت سخت دفعہ ہے۔ اس میں ملزم کو ہی یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ بے قصور ہے۔ لیکن برج بھوشن نے اس قانون کو بدلوانے کی کوشش کی۔ انھوں نے ایودھیا کے سادھو سنتوں کو اپنے حق میں کر لیا اور حیرت ہے کہ وہ جہاں برج بھوشن کی حمایت کر رہے ہیں وہیں وہ اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

سادھو سنتوں کے اس موقف پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ سادھوؤں کا منصب تو اخلاقیات کو فروغ دینا ہے لیکن وہ غیر اخلاقی حرکت کرنے والے کی حمایت کر رہے ہیں۔ دراصل برج بھوشن شرن سنگھ بھی بابری مسجد منہدم کرنے والوں میں شامل ہیں۔ ان پر بھی انہدام کا الزام لگایا گیا تھا۔ لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ بی جے پی بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ لگاتی ہے لیکن حقیقتاً اس کو بیٹیوں یا خواتین سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ فی الحال تو یہی دیکھ لیجیے کہ برج بھوشن پر اتنے سنگین الزامات لگے ہیں لیکن نہ تو وزیر اعظم بول رہے ہیں اور نہ ہی وزیر داخلہ نہ ہی حکومت کا کوئی وزیر۔ بلکہ ایک وزیر میناکشی لیکھی کو جب صحافیوں نے پکڑ لیا تو وہ ایسے بھاگنے لگیں جیسے بقول شخصے اولمپک کی تیاری کر رہی ہوں۔


اس سے قبل جب جموں کے کٹھوعہ کی ایک آٹھ سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی اور پھر وحشیانہ انداز میں اس کا قتل کر دیا گیا تھا تو بی جے پی کے لیڈران ملزموں کی حمایت میں آگئے تھے۔ انھوں نے ملزموں کے حق میں ریلی نکالی تھی اور ریلی نکالنے والوں میں جموں کے وکلا بھی شامل تھے اور ان تمام لوگوں کا تعلق بی جے پی سے تھا۔ کیا ایک آٹھ سالہ معصوم بچی کی آبروریزی اور وحشیانہ قتل کی حمایت کرکے انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ان کو عورتوں اور لڑکیوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور یہ کہ اگر اس قسم کے گھناونے جرائم کرنے والے ان کے ہم مذہب ہیں تو وہ ان کی حمایت کریں گے۔ یعنی وہ ظالم کی حمایت کریں گے مظلوم کی نہیں۔

اسی طرح بی جے پی کے سابق ایم پی سوامی چنمیا نند پر ان کی ایک شاگردہ نے جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا۔ انھیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ بعد میں اس لڑکی کو راضی کیا گیا کہ وہ اپنا کیس واپس لے لے۔ اس طرح انھیں رہا کرایا گیا۔ بی جے پی نے ان کی بھی حمایت کی تھی۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی کلدیپ سینگر پر ایک خاتون کی آبروریزی اور اس کے اہل خانہ کے قتل کا الزام ہے۔ جب اس پر بہت زیادہ ہنگامہ ہوا تب کہیں جا کر انھیں گرفتار کیا گیا۔ ان کی حمایت بھی بی جے پی کرتی رہی۔ اسی طرح ہاتھرس میں جن لوگوں پر ایک دلت خاتون کی عصمت دری اور قتل کا الزام تھا ان لوگوں کی بھی حمایت کی گئی۔ گویا بی جے پی کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ مظلوم عورتوں کے بجائے ظالم مردوں کا ساتھ دیتی رہی ہے۔ لہٰذا وہ برج بھوشن شرن سنگھ کا بھی ساتھ دے رہی ہے۔


پہلی بات تو یہ کہ پولیس ان کے خلاف رپورٹ ہی درج نہیں کر رہی تھی۔ جب خاتون پہلوانوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور سپریم کورٹ نے دہلی پولیس کو ہدایت دی تب کہیں جا کر ایف آئی آر درج کی گئی۔ لیکن جب پہلوانوں نے نئی پارلیمنٹ بلڈنگ تک مارچ کرنے اور وہاں مہیلا پنچایت کرنے کا اعلان کیا تو اسی دہلی پولیس نے جس نے برج بھوشن کو چھوٹ دے رکھی ہے، ان کو سڑکوں پر گھسیٹا اور انھیں بسوں میں بھر کر  تھانوں میں لے جا کر بند کر دیا گیا۔ جن خاتون پہلوانوں نے پوری دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا ان کو اس طرح بے عزت کیا جائے گا ایسا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ پولیس کی اس کارروائی کی پوری دنیا میں مذمت ہو رہی ہے اور برج بھوشن کی گرفتاری کا مطالبہ ہو رہا ہے لیکن اب بھی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔

یہ واقعات اس بات کے شاہد ہیں کہ حکومت برج بھون کی پشت پر کھڑی ہے۔ جبکہ بغیر کسی جرم اور قصور کے ان لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے جو حکومت کے جانبدارانہ اور غیر منصفانہ قانون سی اے اے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ان لوگوں پر یو اے پی اے لگا دیا گیا ہے تاکہ ان کی ضمانت نہ ہو سکے۔ لیکن برج بھوشن پر سنگین الزامات کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔ کیا یہ حقائق اس بات کا ثبوت نہیں ہیں کہ حکمراں طبقے کے لیے الگ قانون ہے اور عوام کے لیے الگ۔ مبصرین کے مطابق حکومت برج بھوشن کے خلاف اس لیے کارروائی نہیں کر رہی ہے کہ اس صورت میں اسے سیاسی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ لیکن انہی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر برج بھوشن کو گرفتار نہیں کیا گیا تو بی جے پی کو کہیں زیادہ نقصان اٹھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔     

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔