اب ہم اور آپ اعلانیہ طور پر ہندو راشٹر میں ہیں... ظفر آغا
اس بار چناؤ بھگوان رام کی فتح کا جشن ہوگا اور اسی نام پر ووٹ مانگا جائے گا۔ جو اس کی مخالفت کرے گا وہ ’ادھرمی‘ اور ہندو دشمن بتایا جائے گا۔ ہندو راشٹر میں اب چناوی رنگ بھی پوری طرح ہندو دھرم کا ہوگا
کسی کو یہ بات پسند ہو یا نہ ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ ابھی 28 مئی کو نئی دہلی میں نئی پارلیمنٹ کی عمارت کے افتتاح کا جشن افتتاحی تقریب کم اور ملک کے ہندو راشٹر کے اعلان کی تقریب زیادہ تھی۔ جی ہاں، 28 مئی کو ہندوستان باقاعدہ ایک ہندو راشٹر بنا دیا گیا۔ یوں تو مئی 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آتے ہی ملک کو ہندوتوا نظریہ سے جوڑ دیا گیا تھا۔ موقع در موقع ہندوستانی اقلیتوں کے ساتھ دوسرے درجے کا سلوک کر یہ احساس کروایا جا رہا تھا کہ مودی جی کا ہندوستان ہندوؤں کا ہندوستان ہے۔ نوبت یہاں تک آئی کہ ابھی سنہ 2022 میں اتر پردیش جیسے اہم صوبہ کا اسمبلی الیکشن وزیر اعلیٰ یوگی جی نے 80 بمقابلہ 20 فیصد کے نعرے پر لرا اور جیتا بھی۔ لیکن ابھی تک کم از کم پارلیمنٹ کے اندر کسی تقریب کو مذہبی رنگ نہیں دیا گیا تھا۔ لیکن 28 مئی کو یہ حد بھی پار کر لی گئی۔
ایک جمہوری نظام میں پارلیمنٹ ملک کی جمہوریت کی نگہبان ہوتی ہے۔ وہیں ملک کے قوانین بنتے ہیں جس کے تحت ملک کا نظام چلتا ہے۔ لیکن یہ نظام اور پارلیمنٹ میں بنائے جانے والے قوانین آئین کے نظریات کے تحت بنائے جاتے ہیں۔ نظریاتی سطح پر آج بھی ہندوستانی آئین کے مطابق ہندوستان ایک سیکولر اور سوشلسٹ ریپبلک ہی ہے۔ اس سلسلے میں آئین میں کوئی تبدیلی ابھی بھی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ آر ایس ایس کو ملک کے سیکولر ہونے پر سخت ناراضگی رہی ہے۔ گو کہ بی جے پی نے کھلے عام اس بات سے کبھی انکار نہیں کیا کہ وہ آئین میں یقین نہیں رکھتی ہے، لیکن اس کی کچھ ایسی دفعات سے بی جے پی کو ہمیشہ اتفاق نہیں رہا جو مسلم حامی یا دوسری اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں۔ مثلاً آئین میں مختلف مذاہب کو جو پرسنل لاء کے حقوق دیے گئے ہیں، بی جے پی کھل کر ان کے خلاف ہے اور ملک میں یکساں سول کوڈ کی بات کرتی ہے۔ اسی نظریہ کے تحت مسلمانوں کا تین طلاق کا حق ختم کر دیا گیا۔ اسی طرح مسلم اکثریتی صوبہ جموں و کشمیر کو آئین کی دفعہ 370 کے تحت جو خصوصی اختیارات ملے ہوئے تھے، مودی حکومت نے دفعہ 370 کو ختم کر ان اختیار کو بھی ختم کر دیا۔ باقاعدہ جموں و کشمیر صوبہ نہیں بلکہ مرکز کے زیر انتظام ایک خط ہو گیا۔ پھر ملک کے شہری قانون میں ترمیم کر پاکستان اور دیگر ممالک سے آئے مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی شہریت سے محروم کر دیا گیا۔ شہری قانون کے ذریعہ اب یہ کوشش ہے کہ بڑی مسلم آبادی سے ووٹنگ کا حق بھی تلف کر لیا جائے۔
الغرض ملک میں پچھلے 9 برس میں ہر طرح سے ہندوتوا کا ڈنکا بج رہا تھا اور ملک ہندو راشٹر کے نظریہ پر ہی گامزن تھا۔ لیکن ابھی تک ملک کے پارلیمنٹ کے ایوان سے اس بات کا کھلا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ سو 28 مئی 2023 کو نریندر مودی نے بذات خود پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب میں اس بات کا بھی اعلان کر دیا کہ اب ہندوستان کھلے طور پر ایک ہندو راشٹر ہے۔ جس طرح پارلیمنٹ میں ہون ہوا، یا جس طرح وزیر اعظم نے پجاری کے ہاتھوں سینگول کو قبول کیا اور اسے پارلیمنٹ میں نصب کیا، اس سے دنیا کو یہ بتا دیا گیا کہ ہندوستانی ریاست کا بنیادی کردار اب باقاعدہ ہندو ہو گیا ہے۔ گو کہنے کو ایک چھوٹی سی بین المذاہب تقریب میں مختلف عقائد کی مذہبی کتابوں سے بھی کچھ پڑھا گیا، لیکن اس تقریب سے بھی یہ ظاہر تھا کہ اب ہندوستان میں غیر ہندو مذاہب کی بس اتنی ہی حیثیت ہوگی جتنی کہ 28 مئی کو نئی پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب میں تھی۔ ظاہر ہے کہ پورے فنکشن سے عیاں تھا کہ وہ حیثیت ہندو رسومات کے مقابلے دوسرے درجے کی نظر آ رہی تھی۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ پوری تقریب کھل کر یہ اعلان کر رہی تھی کہ ہندوستان میں سرکاری سطح پر سوائے ہندو عقائد کے باقی سب عقائد دوسرے درجے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یعنی اب ہندوستان باقاعدہ ایک ہندو راشٹر ہے اور اس بات کا اعلان ملک کے نئے پارلیمنٹ ہاؤس سے ہوتا ہے، جو اب ملک کو مودی جی کے سپنوں کا نیا ہندوستان بنانے کے لیے کارگر رہے گا۔ مودی جی کا نیا ہندوستان کن نظریات پر مبنی ہے، اس سے سب واقف ہیں۔ اس لیے اب کسی کو ملک کے ہندو راشٹر ہونے میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ 28 مئی کو بی جے پی نے ملک میں سنہ 2024 تک ہونے والے تمام صوبائی اور پارلیمانی چناؤ کی حکمت عملی اور کیمپین ایجنڈے کا بھی اعلان کر دیا۔ بی جے پی اگلے تمام چناؤ ’نئے ہندوستان‘ (یعنی ہندو راشٹر) اور نئی پارلیمنٹ کی عمارت سے شروع ہونے والے نئے ’کلچرل انقلاب‘ کے ایجنڈے پر لڑے گی۔ اس ’کلچرل انقلاب‘ کے سمبل ہوں گے ایودھیا میں تیار رام مندر اور اسی طرح بی جے پی حکومت کے دوران جن مندروں پر کام ہوا ان کو ہر طرح سے عوامی سطح تک پہنچانا۔ یعنی چند مہینوں کے اندر ملک پھر ’جئے شری رام‘ کے نعروں میں ڈوب جائے گا۔ اس بار چناؤ بھگوان رام کی فتح کا جشن ہوگا۔ اور اسی نام پر ووٹ مانگا جائے گا۔ جو اس کی مخالفت کرے گا وہ ’ادھرمی‘ اور ہندو دشمن بتایا جائے گا۔ بس یوں سمجھیے کہ ہندو راشٹر میں اب چناوی رنگ بھی پوری طرح ہندو دھرم کا ہوگا۔ اس کے نتائج کیا ہوں گے، یہ تو ملک ہی طے کرے گا۔ لیکن اب ہم اور آپ اعلانیہ طور پر ایک ہندو راشٹر میں ہیں جس سے انکار ناممکن ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 04 Jun 2023, 10:11 AM