الیکشن کمیشن: حکومت کے ہاتھ میں لڈّو!... اعظم شہاب
الیکشن کمیشن کے سربراہان کی تقرری سے متعلق بل کے قانون بننے کے بعد انتخابات کا جمہوری عمل محض ایک لایعنی ایکسرسائز ہوکر رہ جائے گا!
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کی بنیاد چار ستونوں پر ہوتی ہے۔ لیکن جب یہی جمہوریت آمریت کا روپ دھارن کر لیتی ہے تو پھر اس کی بنیاد الیکشن کمیشن، مرکزی تفتیشی ایجنسیاں، زر خرید قومی میڈیا اور مذہبی منافرت پھیلانے والے گروہوں پر قائم ہو جاتی ہے۔ اب اگر کسی حکومت کا وجود آمریت والی بنیادوں کا مرہونِ منت ہو جائے تو پھر وہی ہوگا کہ ان بنیادوں کو ہی اپنے تابع کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اب اسے اتفاق کہا جائے یا مرکزی حکومت کی آمریت کہ اس نے الیکشن کمیشن کے سربراہان کی تقرری سے متعلق تمام اختیارات کو اپنے ہاتھ میں رکھنے والا بل راجیہ سبھا میں لا کر یہ واضح کر دیا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت و جمہوری اداروں کی آزادی اس کی مرضی و مفاد پر منحصر ہے۔
مودی حکومت کے بل کے مطابق الیکشن کمشنرز کی تقرری کے عمل سے چیف جسٹس آف انڈیا کو ہٹا کر ان کی جگہ حکومتی کابینہ کے ایک وزیر کو لے لیا گیا۔ یعنی کہ تقرری کی سہ رکنی کمیٹی میں جو ایک رکن غیر جانبدار تھا، اس کو حکومت کے ایک وزیر سے تبدیل کر دیا گیا۔ یہ بل اگر پاس ہو جاتا ہے (جو یقیناً پاس بھی ہو جائے گا) تو اس کے مطابق اس کمیٹی میں ایک وزیر اعظم ہوں گے، دوسرے ان کے کوئی پسندیدہ وزیر ہوں گے، اور تیسرے اپوزیشن لیڈر ہوں گے۔ پھر ہوگا یہ کہ کسی نام پر اپوزیشن لیڈر چاہے جتنا اعتراض کرے، دو رکنی اکثریت سے اس کے اعتراض کو درکنار کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ شخص کو الیکشن کمشنرز بنا دیا جائے گا۔ یہ بالکل سی بی آئی کے ڈائریکٹر کی تقرری جیسا عمل ہوگا جس میں اپوزیشن لیڈر نے نہ صرف اعلانیہ مخالفت کی بلکہ تحریری طور پر اعتراض کیا، لیکن اس کی ایک نہ چلی اور حکومت جسے چاہتی تھی اسے ہی ڈائریکٹر بنا دیا۔
مودی حکومت کے الیکشن کمیشن پر کنٹرول کی واضح مثال ارون گویل صاحب کی تقرری کا عمل ہے۔ارون گویل صاحب پٹیالہ کے رہنے والے ایک پرانے بیوروکریٹ ہیں۔ وہ 1985 بنچ کے پنجاب کیڈر کے آئی اے ایس افسر ہیں۔ وہ 31 دسمبر 2022 کو 60 سال کی عمر ہونے پر ریٹائر ہونے والے تھے، لیکن چونکہ مودی حکومت کو انہیں الیکشن کمشنر بنانا تھا اس لیے ایک ماہ 12 دن قبل یعنی 18 نومبر کو ہی انہوں نے وی آر ایس لے لیا۔ ان کی فائل 24 گھنٹے کے اندر تیار ہو گئی اور انہیں الیکشن کمشنر بنا دیا گیا۔جبکہ الیکشن کمشنر کی تقرری کے عمل سے پہلے کچھ ناموں کا انتخاب ہوتا ہے، پھر ایک کمیٹی ان ناموں پر غور کرتی ہے، پھر وہ نام کابینہ کے پاس جاتا ہے اور کابینہ اس کی توثیق کے لیے صدر جمہوریہ کے پاس بھیجتی ہے، تب جا کر الیکشن کمشنر کا تقرر ہوتا ہے۔ لیکن گویل صاحب کے معاملے میں یہ پورا مرحلہ محض 24 گھنٹے کے اندر مکمل ہو گیا تھا۔
پھر جب یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو سپریم کورٹ نے حکومت سے گویل صاحب کی فائل طلب کر لی۔ حکومت نے عدالت کو بتایا کہ گویل صاحب کی فائل 24 گھنٹے میں تیار کر لی گئی تھی۔ اس پر سپریم کورٹ نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے حکم دیا کہ چونکہ الیکشن کمیشن حکومت کا ہی نہیں بلکہ پورے ملک کا ہوتا ہے، اس لیے اس کی تقرری میں شفافیت برتی جائے اور غیر جانبداری کے ساتھ تقرری کی جائے۔ اس کے لیے سپریم کورٹ نے تین لوگوں کی کمیٹی بنا دی جس میں وزیر اعظم، اپوزیشن لیڈر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو رکھا گیا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے مودی حکومت مشکل میں پڑ گئی کیونکہ ایسی صورت میں تو اس کی تمام انتخابی سرگرمیوں میں رخنہ پڑ سکتا تھا۔ کیونکہ جب الیکشن کمشنرز کی تقرری غیر جانبدارانہ طریقے سے ہو جائے گی تو پھر جھوٹ، جملے بازی و پولرائزیشن کا دائرہ محدود ہو جائے گا۔
الیکشن کمشنر کی تقرری کا معاملہ بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ الیکشن کے عمل پر اٹھنے والے سوالات سے لگایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اس ملک میں انتخابات ای وی ایم سے ہوتے ہیں۔ ای وی ایم کے ہیک کرنے یا اس کے غلط استعمال کی شکایت کے بعد اس کے ساتھ وی وی پیٹ مشین لگائی گئی۔لیکن ابھی گزشتہ ماہ 3 جولائی کو ایک رپورٹ آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 2019 انتخابات میں استعمال کی گئی 37 فیصد وی وی پیٹ مشینیں خراب تھیں۔ یعنی گزشتہ عام انتخابات میں 100 میں سے 37 وی وی پیڈ مشینیں خراب تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وی وی پیٹ خراب ہونے کی صورت میں جن ہدایات یا طریقوں پر عمل کرنا ہوتا ہے، ان پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن یہ کہتا ہے کہ ای وی ایم میں ووٹنگ کو محفوظ رکھنے کے لیے وی وی پیٹ ہے اور 37 فیصد وی وی پیٹ ہی خراب ہو تو بھلا کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ انتخابی عمل شفاف تھا؟
ایسی صورت میں اگر الیکشن کمیشن غیر جانبدار ہوگا تو وہ انتخابی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے خراب وی وی پیٹ والی ای وی ایم میں جمع ووٹنگ کی تصدیق سے ہی انکار کر دے گا۔ اگر اتنی بڑی مقدار میں گڑبڑی ہونے کا خدشہ موجود ہو تو کیا کوئی یہ تصور کر سکتا ہے کہ انتخابات غیر جانبدار یا شفاف ہوں گے؟ جبکہ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مقرر کیے ہوئے تمام اداروں و ایجنسیوں کے سربراہان حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کے چشم ابرو کے مطابق اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ای ڈی کی کارروائیوں کی مثال ہمارے سامنے ہے جن میں 95 فیصد کارروائی اپوزیشن لیڈروں کے خلاف ہوئی ہے۔ کیا یہ شفافیت کے علامت ہیں؟ ایسی صورت میں جب پورے ملک میں انتخابات کی شفافیت سے متعلق فکر مندی ہے تو پھر اسی درمیان کوئی ایسا معاملہ سامنے آ جائے جس سے انتخابات کے شفاف ہونے پر خدشات کے بادل مزید گہرے ہو جائیں تو بات تشویشناک ہو جاتی ہے۔
یوں تو الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر ہمیشہ ہی خدشات کے بادل منڈلاتے رہے ہیں، لیکن مرکز میں مودی حکومت کے قیام کے بعد سے اس کی کارکردگی جس طرح شکوک و شبہات کے دائرے میں آئی ہے اور جس طرح اس پر جانبداری کے الزام لگے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ حصولیابی بھی مودی حکومت کے ہی حصے میں آئی کہ الیکشن کمیشن کو بی جے پی کا ’بی‘ ٹیم بتایا جانے لگا تھا۔ عام آدمی پارٹی کے منیش سسودیا اور انتخابی حکمت عملی ساز پرشانت کشور نے تو اعلانیہ طور پر الیکشن کمیشن پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ بی جے پی کی ’بی‘ ٹیم کے طور پر کام کر رہا ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن کے سربراہان کی تقرری سے متعلق مودی حکومت کا یہ بل یقینی طور انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس کے قانون میں تبدیل ہونے کی صورت میں جمہوریت میں ووٹنگ کا عمل ایک لایعنی ایکسرسائز ہو کر رہ جائے گا۔
(نوٹ: یہ مضمون نگار کا ذاتی نظریہ ہے، اس سے قومی آواز کا متفق ہونا ضروری نہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔