یوپی میں کورونا: الٹی ہو گئی ہیں سب تدبیریں... سراج نقوی
ایک خبر کے مطابق راجدھانی کے کنگ جارج میڈیکل کالج کے تقریباً 40 ڈاکٹر کورونا پازیٹو پائے گئے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ تمام ڈاکٹر کورونا ویکسین لے چکے تھے۔
کورونا کی دوسری اور پہلی سے زیادہ خطرناک لہر کو روکنے کی یوگی حکومت کی تمام تدبیریں ناکام ہو رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ریاستی راجدھانی لکھنؤ دوسرا ’ووہان‘ بنتا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ چین کے مذکورہ شہر سے ہی کورونا دنیا کے دیگر حصّوں میں پھیلا تھا۔ ریاست کے عوام میں کورونا کا خوف اور دہشت کس حد تک ہے اس کا اندازہ الہ آباد سے پریاگ راج بن چکے شہر سے متعلق ایک رپورٹ اور اتر پردیش سے ملحقہ ریاست اترا کھنڈ میں جاری کمبھ کے میلے سے آرہی رپورٹوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : سخنِ حق کو فضیلت نہیں ملنے والی... سراج نقوی
حالات کی سنگینی کا اندازہ خود وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے کورونا پازیٹو ہونے کی خبر سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ ریاست کی دوسری سب سے بڑی پارٹی سماجوادی پارٹی کے سربراہ بھی کورونا پازیٹو ہو گئے ہیں۔ پریاگ راج سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہر میں مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کر رہے، دیگر شہروں، ریاستوں کے طلباء ٹرین اور بسوں سے اپنے گھر واپس جا رہے ہیں اور اسٹیشن و بس اڈے پر کافی ہجوم ہے۔ گھر واپس جانے والے طلباء کا کہنا ہے کہ پریاگ راج میں حالات کافی خراب ہیں۔ خبر ہے کہ راجدھانی لکھنؤ کے اسپتالوں میں بھی کورونا مریضوں کا داخلہ اور علاج مشکل ہو رہا ہے۔ جبکہ قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں پر آخری رسومات کے لیے لائے جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔
غالبؔ نے کہا تھا، ’’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘، اتر پردیش سے متعلق کئی خبریں اسی صورتحال کی عکّاسی کرتی ہیں۔ ایک خبر کے مطابق راجدھانی کے کنگ جارج میڈیکل کالج کے تقریباً 40 ڈاکٹر کورونا پازیٹو پائے گئے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ تمام ڈاکٹر کورونا ویکسین لے چکے تھے۔ ظاہر ہے یہ حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ کورونا کی دوا بھی کسی نہ کسی سبب سے کام نہیں کر رہی ہے۔ ان حالات میں کورونا سے بچنے کی صرف اور صرف ایک تدبیر باقی رہ جاتی ہے، اور وہ ہے احتیاط، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ریاست کے عوام کو کورونا گائیڈ لائین پرعمل کی تلقین کرنے والے خود اس پر عمل نہیں کر پا رہے ہیں۔ تقریباً ایک ہفتہ قبل کانگریس اور سماجوای پارٹی نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر الزام لگایا تھا کہ وہ کووڈ مریضوں کے رابطے میں آنے کے باوجود احتیاط نہیں برت رہے ہیں اور مغربی بنگال و آسام کے اسمبلی الیکشن میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم میں شرکت کر رہے ہیں۔ جس وقت وزیر اعلیٰ پر یہ الزام لگایا گیا اس وقت تک انھوں نے اپنا کورونا ٹسٹ بھی نہیں کرایا تھا۔ بہرحال اب جبکہ ٹسٹ رپورٹ میں وہ کورونا پازیٹو پائے گئے ہیں تو انھیں آئیسولیشن میں جانا پڑا ہے۔
وزیر اعلیٰ کی بات چھوڑ بھی دیں تب بھی ریاست میں جس طرح کی پالیسی کورونا کے تعلق سے اپنائی جا رہی ہے وہ ناقابل فہم ہے۔ ایک طرف وزیر اعلیٰ نے ہدایت دی ہے کہ ریاست میں تمام عبادتگاہوں میں زیادہ سے زیادہ پانچ افراد جمع ہو سکتے ہیں۔ ہر چند کہ سرکاری حکم نامے میں کسی خاص مذہب کی عبادتگاہوں کا ذکر نہیں ہے لیکن یہ بتانے کی ضروت نہیں کہ ماہ رمضان میں مساجد میں آنے والوں کی تعداد روز مرہ کی نمازوں کے علاوہ تراویح کے لیے بڑھ جاتی ہے اس لیے سرکاری حکم نامے سے سب سے زیادہ متاثر بھی مسلمان ہی ہوگا۔ جبکہ دوسری طرف کسی بھی عمارت کے اندر ہونے والے دیگر پروگراموں کے لیے 100 افراد تک جمع ہو سکتے ہیں۔ اب یہ عبادتگاہوں اور دیگر پروگراموں میں جمع ہونے والوں کے لیے الگ الگ پیمانہ کیوں طے کیا گیا ہے، اس کی وضاحت حکومت اور انتظامیہ ہی کر سکتی ہے۔ کیا یہ مان لیا جائے کہ عبادتگاہیں کورونا پھیلانے میں زیادہ منفی رول ادا کر رہی ہیں اور دیگر سماجی یاثقافتی پروگراموں میں بھیڑہونے کا کوئی فرق کورونا کی صورتحال پر نہیں پڑتا؟
کورونا پھیلاؤ کے معاملے میں کمبھ سے آرہی رپورٹیں بھی باعث تشویش ہیں۔ اس کمبھ میں لاکھوں افراد شرکت کر رہے ہیں۔ باعث تشویش پہلو یہ ہے کہ کمبھ میں شریک عقیدتمند نہ تو اپنے طور پر کورونا گائڈ لائن پرعمل کر رہے ہیں اور نہ ہی حکومت یا انتظامیہ کی طرف سے اس معاملے میں ان پر قانون کی عمل آوری کرائی جا رہی ہے۔ جبکہ عوامی مقامات پر بغیر ماسک کے گھومنے پر سخت پابندی ہے اور مختلف ریاستوں کی پولیس ایسے افراد پر جرمانہ بھی کر رہی ہے، لیکن کمبھ سے متعلق جو تصاویر منظر عام پر آرہی ہے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں شامل افراد سوشل ڈسٹینسنگ تو دور کی بات ہے ماسک تک کا استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ صرف چار روز یعنی 10 سے 14اپریل کے دوران یہاں دو ہزار سے بھی زیاد کورونا متاثرین سامنے آئے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس دوران بیراگی اکھاڑوں میں سے ایک نروانی اکھاڑے کے مہا منڈلیشور کپل منی کورونا کی زد میں آکر فوت ہوگئے ہیں۔ کپل منی کو جانچ میں پازیٹو پائے جانے پر دہرہ دون کے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں ان کی موت واقع ہوئی۔
اب کہا جا رہا ہے کہ سنتوں کی جانچ کا دائرہ وسیع ہوگا اور جو لوگ مہا منڈلیشور کے رابطے میں آئے ان کو الگ تھلگ کیا جائیگا۔ لیکن سوال یہ نہیں کہ اب کیا اقدامات کیے جائیں گے، بلکہ سوال یہ ہے کہ اتنے سنگین حالات میں بھی اتنی بڑی تعداد کو کورونا گائڈ لائین کی خلاف ورزی کرنے کا موقع کیوں دیا گیا؟ اگر عبادتگاہوں میں پانچ سے زیادہ افراد کی عبادت پر روک لگ سکتی ہے تو کمبھ میں بھی سوشل دسٹینسنگ اور ماسک جیسی بنیادی احتیاط کے معاملے میں تو سختی برتی ہی جانی چاہیے تھی اور لاکھوں کی تعداد کو کم کیا جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اتر پردیش اور ملک کی دیگر ریاستوں سے کمبھ میں شریک ہونے والے کورونا لے کر اپنے علاقوں میں جا رہے ہیں اور باقی لوگوں میں بھی اس بیماری کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔
لیکن گزشتہ برس چند ہزار تبلیغی جماعت والوں کو کورونا پھیلانے کے الزام میں پانی پی پی کر کوسنے والوں کی زبان پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ بتانے کا مقصد کسی کا دفاع یا کسی کو مورد الزام ٹھہرانا نہیں بلکہ صرف حکومتوں کے دوہرے رویے کو سامنے رکھنا ہے۔ دراصل یہ رویّہ بھی کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ اتر پردیش میں اگر کورونا زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے تو ا س کے لیے مذکورہ صورتحال کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ حکومت اور انتظامیہ کے رویے کا دوہرا پن اس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست میں پنچایت انتخابات کو ملتوی کرنے کی اپیلوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ جبکہ اس سلسلے میں صرف اپوزیشن جماعتوں ہی نہیں بلکہ حکمراں جماعت کے بھی کئی لیڈروں نے الیکشن کمیشن اور حکومت سے درخواست کی تھی کہ کورونا کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پنچایت الیکشن ابھی نہ کرائے جائیں۔
یہ بھی پڑھیں : کورونا بحران میں بی جے پی کی ’مہا‘ دشمنی... اعظم شہاب
یہ کون سی منطق ہے کہ پنچایت الیکشن، سیاسی ریلیاں یا کمبھ کا میلہ کورونا کے پھیلاؤ کے لیے خطرناک نہیں ہے اور اس میں ہزاروں یا لاکھوں کی تعداد میں بھی لوگوں کو شرکت کی اجازت دی جا سکتی ہے، جبکہ عباتگاہوں میں صرف پچاس لوگ بھی ایک ساتھ عبادت نہیں کر سکتے۔ حالانکہ دلّی میں ہائی کورٹ نے تبلیغی جماعت کے مرکز تک میں پچاس افراد کو نماز اور تراویح کی اجازت دے دی ہے۔ اتر پردیش ہو یا اتراکھنڈ کی حکومت دونوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ کورونا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ضروری اقدامات کریں لیکن ان اقدامات میں اگر غیر منطقی بنیادوں پر کوئی تفریق یا جانبداری کے پہلوکو شامل کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں کورونا مزید خطرناک شکل اختیار کر سکتاہے۔ ایسے معاملات میں پالیسی کا نفاذ کسی تعصب یا جانبداری کی بنیاد پر نہیں کیا جانا چاہیے ورنہ اس کے خطرناک نتائج تمام عوام کو بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Apr 2021, 10:11 PM