بی جے پی! شرم تم کو مگر نہیں آتی... نواب علی اختر
سوشل میڈیا پر ’ثبوت‘ کے ساتھ بی جے پی رہنماؤں کے بیانات وائرل ہو رہے ہیں لیکن ’شرم ان کو مگر نہیں آتی‘۔ گوئبلس کی طرح ان کے پروپیگنڈے کا سلسلہ جاری ہے، یہ کہاں جاکر رکے گا، فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے۔
اترپردیش کے ہاتھرس میں 19 سالہ دلت بچی کے ساتھ ہوئی درندگی جیسا دلخراش واقعہ پنجاب میں سامنے آیا ہے جو اس وقت سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس واقعہ کو لے کر حملے اور دفاع کے ساتھ الزام تراشی کا دور جاری ہے اور سیاسی پارٹیاں بالکل غیر حساس ہو کر ایک دوسرے پرحملے کر رہی ہیں۔ پنجاب کے ہوشیار میں بہار کے غیر مقیم مزدور کی 6 سال کی بچی کی عصمت دری اور اس کے بعد اس کے قتل کو بی جے پی اپنی سیاست کا مرکز بنانے میں مصروف ہے حالانکہ اسی بی جے پی کو اترپردیش کے ہاتھرس، اناو، لکھیم پور، سیتاپور جیسے کئی حصوں میں ہوئے دل دہلا دینے والے واقعات پر سانپ سونگھ گیا تھا۔
حد تو تب ہوگئی کہ بی جے پی میں نرملا سیتا رمن، اسمرتی ایرانی جیسی نصف درجن خواتین لیڈروں کی فوج بھی ہاتھرس کی دل دہلا دینے والی واردات پر خاموش رہیں، متاثرہ خاندان کے آنسو پوچھنا تو دور انہیں دلاسہ دینے کے لیے ایک بیان تک نہیں دیا، جب کہ یوپی اے کے دور اقتدار میں یہ لوگ پارلیمنٹ میں پانی پی پی کرحکومت کو کوستے نظر آتے تھے۔ نریندر مودی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے مرکز کی یوپی اے حکومت پرحملہ کرتے ہوئے دہلی کو’ریپ کی راجدھانی‘ کہا تھا۔ اب جب کہ ملک میں بالخصوص بی جے پی زیر حکمرانی ریاستوں میں تقریباً ہر روزعصمت دری کی وارداتیں ہو رہی ہیں، بھگوا پارٹی کے منہ پر تالا لگا ہوا ہے۔
پنجاب کے ہوشیار پور کی واردات کو لے کر بی جے پی نے ریاست میں حکمراں کانگریس پارٹی کو نشانہ بنایا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بی جے پی نے یہ طے کر رکھا ہے کہ اترپردیش، بہار، ہریانہ جیسے صوبوں میں جہاں اپنی حکومتیں ہیں وہاں جو بھی ہوتا ہے اس کو نہیں دیکھنا ہے اور جہاں غیر بی جے پی حکومتیں ہیں، وہاں کچھ ہوتا ہے تو فوراً دیکھنا ہے۔ جرائم کو لے کر بی جے پی کے اس دوہرے رویئے سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں ’بھائی، بہنوں‘ سے کوئی مطلب نہیں ہے بس مفاد پرستی کی سیاست ہی ان کا نصب العین ہے، خواہ ملک میں بہن بیٹیوں کے ساتھ پسماندہ طبقے کے ساتھ کتنے ہی مظالم کیوں نہ روا رکھے جائیں۔
ہندوستان کی سیاست میں حکمراں پارٹی بی جے پی نے اپنے دور اقتدار میں خوب اتھل پتھل مچائی ہے، اس نے مذہب، ذات پات، نسل برادری کو تو تقسیم کر ہی دیا ہے، اب جرائم کا پیمانہ بھی بدلتا نظر آرہا ہے۔ جرائم کو بھی پارٹی سیاست کی نظرسے دیکھا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے رویئے سے ایسا لگ رہا ہے کہ اپنی حکومت والی ریاست میں کوئی بھی سنگین واردات ہو تو اسے اپوزیشن کا گناہ بتا کر پلہ جھاڑ لیا جائے اور غیر بی جے پی حکومت والی ریاست میں ہونے والی واردات کو ہی جرم کے زمرے میں رکھ کر اس پر اتنی ہائے توبہ مچائی جائے کہ اپنے سنگین سے سنگین تر گناہ بھی زمیں دوز ہوکر رہ جائیں۔
نرملا سیتا رمن ہوں، اسمرتی ایرانی ہوں یا کوئی اور، دل میں خواتین کا درد ہونا چاہیے۔ ایسے سیاستدانوں کو شرم آنی چاہیے جو خواتین کی بات کرتے نہیں تھکتے ہیں لیکن جب زیادتی کا شکار خواتین کو انصاف دلانے کی بات آتی ہے تو وہ ’کُمبھ کرن‘ کی نیند سوجاتے ہیں۔ ان کی پروپیگنڈا مشینری بھی اسی وقت کام کرتی ہے جب اپنی گردن پھنسنے لگتی ہے اس کے علاوہ یہ جھوٹ پرجھوٹ بول کر اپنا سیاسی الو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔ جرمنی کے ہٹلر کا پروپیگنڈا گوئبلس تھا جس کا کہنا تھا کہ کسی جھوٹ کو اتنے بار دہراؤ کہ وہ سچ ہونے لگے، بی جے پی کے لوگ شاید وہیں سے سیکھتے ہیں کہ کسی بھی موضوع کو منتخب کر کے چلاتے رہو۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہر بڑے معاملے میں ان لوگوں کا ہمیشہ دہرا کردار رہا ہے لیکن اب جو انسانی تقاضے ہیں اس میں بھی یہ بدل گئے ہیں۔ اپوزیشن میں رہ کر بی جے پی کے لوگ جی ڈی پی، مہنگائی، روپئے کی قدر میں گراوٹ، جرائم پر گلے پھاڑ پھاڑکر چلاتے تھے یہاں تک کہ وزیر اعظم کو چوڑیاں تک بھیج چکے ہیں مگر آج جب جی ڈی پی میں ریکارڈ گراوٹ آئی ہے، مہنگائی آسمان پر ہے، روپیہ پورا گرا ہوا ہے، بے روزگاری سے پریشان نوجوان خود کشی پر مجبور ہیں، جرائم کا حال تو یہ ہے کہ خواتین کیا مرد طبقہ بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہا ہے۔ بی جے پی کے پرانے بیانات اور ویڈیوز دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے قول وفعل میں کتنا تضاد ہے۔
پرانے کردارکی وجہ سے ہی حکومت میں بیٹھے لوگ آج مذاق کا موضوع بن گئے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کے طور پر بی جے پی کے لیڈروں بشمول نریندر مودی، ارون جیٹلی، سشما سوراج، اسمرتی ایرانی کے بیانات آج سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں خاص طور پر بنارس میں دیا گیا نریندر مودی کا وہ بیان جس میں انھوں نے ریلوے کی نجکاری سے انکار کرتے ہوئے اپوزیشن پر جھوٹ پھیلا نے کا الزام لگایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ’ثبوت‘ کے ساتھ ان کے بیانات وائرل ہو رہے ہیں لیکن ’شرم ان کو مگر نہیں آتی‘۔ گوئبلس کی طرح ان کے پروپیگنڈے کا سلسلہ جاری ہے اور یہ کہاں جاکر رکے گا، فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔