ہندوستان: لیبر قانون کے خاتمہ کے ساتھ ہی ’تاریکی دور‘ کی خوفناک شروعات
معاشی پیکیج کے اعلان میں دو ماہ سے بغیر تنخواہ اور کام کے بھوکے پیاسے سسک رہے مزدوروں کا ذرا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ ان کے اکاؤنٹس میں پیسے ڈالنے کی جگہ وزیر مالیات صرف باتوں کو گھماتی رہیں۔
ملک گیر لاک ڈاؤن کے بعد ایک ریاست سے دوسری ریاست جا کر اپنے خون پسینے سے اپنی فیملی کی پرورش کرنے والے لاکھوں مزدوروں نے پہلی بار اپنے ہی ملک کی منتخب حکومت کے ہاتھوں اپنی بدحالی کا اتنا تلخ ذائقہ چکھا ہے۔ وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے بدھ کو ملک کے ان کئی کروڑ نجی سیکٹر کے مزدوروں اور تنخواہ دار ملازمین کو بے حد مایوس کیا جو بغیر وجہ ان کی حکومت کے بغیر سوچے سمجھے تھوپے گئے لاک ڈاؤن کے سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔
معاشی پیکیج کے اعلان میں دو ماہ سے بغیر تنخواہ اور بے روزگاری میں بھوکے پیاسے سسک رہے مزدوروں کے اکاؤنٹس میں پیسے ڈالنے کا اعلان کرنے کی جگہ باتیں صرف ادھر ادھر گھمائی گئیں۔ اب تو یہی لگتا ہے کہ مہاجر مزدوروں کو ابھی مزید کچھ دن خالی جیب بھوکوں مرنے کو چھوڑ دیا گیا۔ اب کئی سوال مزدوروں کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں، مثلاً وہ کب خالی ہاتھ اپنے گاؤں لوٹیں گے؟ انھیں کام پر کب واپس بلانے کی بات ہوگی؟ دو ماہ سے خالی جیب وہ کس بھروسے گاؤں چھوڑ کام دھندوں پر لوٹنے کا جوکھم لیں گے؟
تمام ماہرین کا ماننا ہے کہ نرملا سیتارمن نے ایسی باتوں میں ہی پریس کانفرنس کا وقت ضائع کیا جو ہندوستان جیسی بڑی اکونومی کو ڈیل کر رہی وزیر مالیات کے عہدہ کے موافق قطعی نہیں۔ سنٹر فار انڈین ٹریڈ یونین (سیٹو) کے جنرل سکریٹری اور سابق راجیہ سبھا رکن تپن سین کا کہنا ہے کہ "ایم ایس ایم ای سیکٹر کو جو پیکیج دینے کی باتیں اچھالی گئیں، وہ عطیہ نہیں بلکہ قرض ہے۔ ایک سال کی رعایت قرض ادائیگی میں دی گئی ہے، لیکن بعد میں سود سمیت اسے واپس کرنا ہی ہوگا۔ مزدور طبقہ سے سماجی سیکورٹی چھیننے کا راستہ صاف کر دیا گیا ہے۔ اقتدار کے قریبی بڑے امیر گھرانوں کے اشارے پر ہی مودی حکومت نے لیبر ایکٹ کو اس قدر بے معنی بنا دیا۔ اب پی ایف کی شرح میں بھی تخفیف طے ہے۔"
لاک ڈاؤن میں پی ایم مودی کی بات کو ملک میں کتنی توجہ ملی، لیکن ملک کے سارے مزدوروں اور نجی سیکٹر کے لوگوں نے اس کا خمیازہ خود بھگت لیا۔ مودی کی بات کتنے صنعت کاروں نے مانی یا نہیں مانی، اس بارے میں پی ایم او کو صحیح زمینی رپورٹ ضلعوں کے محکمہ محنت، پولس تھانوں سے لے کر بلاک اور ضلع سطح سے منگانی چاہیے تھی۔ ملک میں اب کسی کو بھی اس بات کی ذرا بھی امید نہیں ہے کہ جو حکومت کورونا سے لڑنے کا بہانہ بنا کر مزدوروں کے استحصال اور ظلم کی عبارت لکھ کر لیبر ایکٹ کو ہی ختم کر چکی ہے، اس حکومت میں اتنی اخلاقی طاقت کہاں بچی ہے کہ لاک ڈاؤن میں مزدوروں کی تنخواہ کو لازمی کر پاتی۔
یہ بھی پڑھیں : تلنگانہ: عید سادگی کے ساتھ منائیں، جمعیۃ علماء ہند کی اپیل
وزیر اعظم نریندر مودی نے 12 مئی کی شام کو 8 بجے اپنے جانے پہچانے انداز میں ملک کے لیے 20 لاکھ کروڑ روپے کے بے سر پیر کے پیکیج کا اعلان کیا۔ اس کے کئی حصوں کا انکشاف اور پوسٹ مارٹم ہندوستان میں طویل وقت تک ہونا ابھی باقی ہے۔ 20 لاکھ کروڑ اور 2020 کی تک بندی۔ لیبر، لاء، لینڈ، لیکویڈیٹی کو بنیاد مان کر آگے بڑھنے کا فلسفہ۔ لوگوں کے سر سے یہ ساری باتیں فوراً ہوا ہو جاتی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی پی ایم مودی نے کورونا کی اس خطرناک وبا کو حصولیابی میں بدلنے کا جو نعرہ دیا، وہ ملک میں زیادہ تر لوگوں کے گلے نہیں اتر رہا۔ ماہرین جو کورونا وبا سے نمٹنے میں پی ایم مودی کے طور طریقوں کی پہلے دن سے ہی تنقید کر رہے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ ہر روز صبح کوئی تین درجن آئی اے ایس افسروں کے ساتھ اپنی رہائش پر ہونے والی میٹنگ میں ملے بابوؤں کے ٹپس کے باہر وہ اب تک نہیں نکل پائے۔
گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر مودی کی کارگزاری کو 13 سالوں تک قریب سے دیکھنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ "تک بندی اور جملوں کے لفظی جال میں باتیں تیار کرنا مودی کی پرانی عادت ہے۔ وہ صرف مزدوروں کے ساتھ ہمدردی دکھانے کا مظاہرہ کرنے اور خود ہمدردی بٹورنے کے لیے خود کو چائے بیچنے والا، تو کبھی اپنی ماں کے پڑوس کے گھروں میں مزدوری کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ لیبر ایکٹ کو ختم کرنے میں انھوں نے سب سے پہلے گجرات سے ہی شروعات کروا دی۔"
ظاہر ہے کہ مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور گجرات میں مزدوروں کے آئینی حقوق کو ختم کر دیا گیا۔ کورونا بحران کی آڑ لے کر ملک میں لیبر ایکٹ کو ختم کرنے کے ذریعہ آزاد ہندوستان میں مزدوروں کے بنیادی حقوق پر یہ سب سے بڑا حملہ ہے۔ 6 مئی کو دہلی میں سنٹرل ٹریڈ یونین کے ساتھ میٹنگ میں وزیر برائے محنت نے قومی لیبر تنظیموں کے مشوروں پر عمل کی باتیں رَدّی کی ٹوکری میں ڈال دیں۔
غور طلب ہے کہ گزشتہ سال 23 جولائی کو مودی حکومت نے پیشہ کے تحت سیکورٹی، صحت اور کام کی شرطوں سے متعلق کوڈ بل لوک سبھا میں پیش کیا اور اسے پاس بھی کروا لیا۔ مرکزی لیبر آرگنائزیشنوں کی اپیل تھی کہ جب تک لاک ڈاؤن ہے، اس وقت تک نئے لیبر ایکٹ کو نافذ کرنے کے عمل کو ملتوی کر دیا جائے۔ مودی حکومت کو یہی موقع سب سے مفید لگا اور لیبر ایکٹ کو ہی ہندوستان سے الوداع کر دیا۔
ماہرین کی نظر میں ملک کو خودکفیل بنانے کی جانب لے جانے کا دم بھرنے والے پی ایم مودی ہندوستان کو سرمایہ دارانہ نطام کے تحت مزدوروں کو غلامی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ بیرون ملکی کمپنیوں کو لبھانے کے لیے جو نئے لیبر ایکٹ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ہی آرڈیننس کے ذریعہ لاد دیئے گئے، ان سے ہندوستان میں لیبر سیکٹر کا ایک بڑا طبقہ غلامی، استحصال اور بدعنوانی کے نئے دور میں داخل ہو جائے گا۔ مودی حامیوں کی نظر میں ملک کے لیبر مارکیٹ کو بدعنوانی اور منمانی کی چھوٹ دینے کے اس ظالمانہ قدم کو نیشنلزم کے طور پر جانا جائے گا۔ لیبر آرگنائزیشن اسے تاریکی دَور کا نام دے رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 May 2020, 9:40 PM