سرکردہ میڈیا شخصیات کے ہاتھوں میڈیا کا پوسٹ مارٹم... سہیل انجم

بحث کے دوران قومی میڈیا کے رویے کی سخت انداز میں مذمت کی گئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اس رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

میڈیا، علامتی تصویر آئی اے این ایس
میڈیا، علامتی تصویر آئی اے این ایس
user

سہیل انجم

میڈیا کی ذمہ داری کیا ہے؟ کیا اس کا کام صرف رپورٹنگ کرنا ہے یا اسے امن عامہ کے قیام میں کوئی کردار بھی ادا کرنا ہے؟ یا اس کا کام صرف نفرت کو ہوا دینا ہے تاکہ کوئی سیاسی گروہ اپنے مقاصد حاصل کرتا رہے؟ یہ سوالات اکثر و بیشتر اٹھتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں بھی یہ سوالات بڑی شدت سے پوچھے گئے۔ موقع تھا اردو صحافت کے دو سو سال کے جشن کا۔ اس موقع پر مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے شعبہ ترسیل عامہ و صحافت نے تیرہ سے پندرہ نومبر کے درمیان ”کاروان اردو صحافت“ کے زیر عنوان اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن منایا۔ اس جشن میں اردو کے بے شمار قدآور اور سینئر صحافی تو موجود ہی تھے انگریزی اور ہندی کے سینئر اور سرکردہ صحافیوں کو بھی بڑی تعداد میں مدعو کیا گیا تھا۔

انگریزی اور ہندی کے ان صحافیوں کو جنھوں نے میڈیا میں اپنی پوری زندگی کھپا دی، مدعو کرنے کا مقصد غالباً یہ تھا کہ ان محرمانِ اسرارِ درونِ خانہ کی زبانی اس میڈیا کی داستان سنی جائے جس کا ماضی بہت باوقار تھا مگر جس نے 2014 کے بعد اپنا ضمیر حکومت کے سامنے گروی رکھ دیا ہے۔ منتظمین کانفرنس نے پہلی شام کو اردو میڈیا کنکلیو یعنی ایک کھلا مباحثہ رکھا۔ یہ مباحثہ یونیورسٹی کی عمارت انتظامی یعنی ایڈمنسٹریٹیو بلاک کے سامنے وسیع و عریض لان میں رکھا گیا۔ چاروں طرف سے قناطوں سے گھرے ہوئے اس کنکلیو میں گول میزوں کے اطراف میں کرسیاں لگائی گئی تھیں اور سامنے ایک بڑا اسٹیج اس انداز سے بنایا گیا تھا کہ اس کا ایک ایک گوشہ حاضرین و سامعین کی نگاہوں میں رہے۔


اس کنکلیو یا مباحثے کے ماڈریٹر یا ناظم یا میزبان سینئر صحافی اور یو پی اے حکومت میں وزیر اعظم کے میڈیا مشیر پنکج پچوری اور ٹی وی نائن کی سمیرا خانم تھیں۔ اس کا عنوان تھا ”عالمی امن کے قیام میں میڈیا کا کردار“۔ اس مباحثے میں مذکورہ دونوں صحافیوں کے علاوہ بی بی سی کے سابق صحافی ستیش جیکب اور مدھوکر اپادھیائے، این ڈی ٹی وی کے سری نواسن جین اور ڈاکٹر راہل سری واستو، سینئر صحافی راہل دیو، پروفیسر سنجے دویدی، دینک جاگرن کے اننت وجے، آج تک کے قمر وحید نقوی، ہارڈ نیوز کے پنکج کپور، انقلاب نارتھ کے سابق ایڈیٹر شکیل شمسی اور سالار کے اعظم شاہد وغیرہ۔ جبکہ راج دیپ سر دیسائی کورونا سے متاثر ہونے کی وجہ سے آن لائن شریک ہوئے۔

اس مباحثے میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ موجودہ میڈیا اپنا فریضہ ادا کرنے میں ناکام ہے۔ را ج دیپ سر دیسائی نے میڈیا کی جانب سے نفرت انگیزی کی خبر لی اور کہا کہ آج جبکہ حیدرآباد میں یہ کانفرنس ہو رہی ہے، حیدرآباد ہی میں ایک واقعہ پیش آیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک اسٹوڈنٹ کو کچھ دیگر اسٹوڈنٹس نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے جس میں ہندو اور مسلم اسٹوڈنٹس دونوں شامل ہیں۔ لیکن اس خبر کو اس انداز سے پیش کیا جا رہا ہے کہ اس واقعہ کی زد مسلم اسٹوڈنٹس پر پڑ رہی ہے اور اس کی آڑمیں دو روز سے مسلسل نفرت پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔


سری نواسن جین نے بحث کا آغاز کیا اور جہاں انھوں نے یہ کہا کہ میڈیا کا کام صرف رپورٹنگ کرنا ہے قیام امن میں تعاون دینا نہیں، وہیں انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے ایک بار آسام کے کوکرا جھارمیں ہندو مسلم فساد کے دوران قرآن مجید کہ جلے ہوئے اوراق دکھانے سے گریز کیا کیونکہ اس سے ماحول اور خراب ہو سکتا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے مقامی انتظامیہ سے ملاقات کرکے اس معاملے کو جلد از جلد حل کرنے کی گزارش کی تاکہ قرآن مجید کے اوراق کو نذر آتش کرنے کی خبر باہر نہ جائے۔ اس پر ان کی ستائش کی گئی اور یہ کہا گیا کہ ان کا یہ قدم بھی قیام امن میں مددگار ثابت ہوا۔ اگر انھوں نے جلے ہوئے اوراق کو دکھایا ہوتا تو یقیناً حالات مزید خراب ہو جاتے۔

راہل دیو نے اس بات پر زور دیا کہ اگر چہ میڈیا ملک میں نفرت پھیلا رہا ہے لیکن یہ صورت حال زیادہ دنوں تک برقرارنہیں رہے گی۔ انھوں نے کچھ اشاروں میں اور کچھ کھلے الفاظ میں کہا کہ اس وقت میڈیا حکومت کا غلام بن گیا ہے۔ لیکن بہرحال فیصلہ عوام کو کرنا ہے اور اس صورت حال کو عوام ہی تبدیل کریں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ عوام تو حکومتوں کا انتخاب کرتے ہیں لیکن مرکزی حکومت میں برسراقتدار جماعت منتخب ارکان کو خرید کر اپنی حکومت بنا لیتی ہے تو پھر عوام کے فیصلے کی کیا اہمیت رہ گئی؟ اس پر انھوں نے پھر یہ بات کہی کہ یہ تو ہو رہا ہے لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں چلے گا۔ بالآخر عوام کا فیصلہ ہی نافذ ہوگا کیونکہ جمہوریت میں عوامی فیصلے کو ہی سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔


اس موقع پر دینک جاگرن کے اننت وجے نے بحث کو دوسری طرف موڑنے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ ہم آج عالمی سطح پر قیام امن کی بات کر رہے ہیں لیکن کیا کسی نے جنگ زدہ یوکرین میں خواتین کی خبر لی اور جو لوگ یہاں یہ بحث کر رہے ہیں ان میں سے کسی نے وہاں جا کر خواتین اور بچوں کی صورت حال پر رپورٹنگ کی۔ ان کے اس سوال پر سمیرا خانم نے کہا کہ ہاں انھوں نے جنگ زدہ یوکرین میں جا کر خواتین کی رپورٹنگ کی ہے۔ حالانکہ وہاں خواتین بہت کم تعداد میں ہیں اور ان سے ملنا اور بات کرنا بہت مشکل تھا۔ لیکن انھوں نے باضابطہ ان سے ملاقات کی اور ان کے حالات دنیا کے سامنے رکھے۔

بحث کے دوران قومی میڈیا کے رویے کی سخت انداز میں مذمت کی گئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اس رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ موجودہ مرکزی حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا اور اس کی جانب سے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی روش کی مخالفت کی گئی۔ پنکج پچوری نے آخر میں لوگوں سے سوالات پوچھے اور کہا کہ میڈیا پر گفتگو کے حوالے سے کئی امراض کی نشاندہی کی گئی ہے لیکن ان امراض سے نجات پانے کے لیے کون سی ویکسین استعمال کی جانی چاہیے۔ مجموعی طور پر یہی نتیجہ نکلا کہ میڈیا اگر اپنا رویہ تبدیل کرے اور نفرت انگیزی کی رپورٹنگ بند کر دے تو عوام کا بھلا ہوگا۔ یہ بھی کہا گیا کہ بہرحال جمہوریت میں کنجی عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ عوام ایک دن اٹھ کھڑے ہوں گے اور میڈیا اور حکومت کی ملی بھگت سے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کا خاتمہ کر دیں گے۔


مجموعی طور پر یہ بات سامنے آئی کہ اگر چہ میڈیا کا کام رپورٹنگ کرنا ہے لیکن اسے سچ دکھانا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی واقعہ کو نمک مرچ لگا کر اور بڑھا چڑھا کر اس طرح پیش کیا جائے کہ سچ کہیں دب جائے اور جھوٹ کی بالادستی ہو جائے۔ ان کے بقول آج کا میڈیا نفرت کا آتش فشاں بن چکا ہے۔ اگر وہ نفرت پھیلانے کے بجائے اپنا فرض منصبی ادا کرے تو یہ میڈیا اور ملک دونوں کی خدمت ہوگی۔ اس کے علاوہ اسلاموفوبیا کا بھی ذکر ہوا اور اس کے خاتمے پر زور دیا گیا۔ اس مباحثے میں شریک صحافیوں نے جو کہ میڈیا کے اندرونِ خانہ کے تمام رازوں سے واقف ہیں سر عام میڈیا کی کھال ادھیڑ دی اور پوسٹ مارٹ کرکے دنیا کو دکھا دیا کہ دیکھو اس کے اندر کتنا زہر بھرا ہوا ہے۔ 

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔