”وہ اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر…“ سہیل انجم

بھارت جوڑو یاترا نے تقریباً نصف سفر مکمل کر لیا ہے تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ محض ایک یاترا نہیں ہے بلکہ یہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایک انوکھا باب رقم کر رہی ہے۔

بھارت جوڑو یاترا، ٹوئٹر @INCIndia
بھارت جوڑو یاترا، ٹوئٹر @INCIndia
user

سہیل انجم

حکمراں محاذ اسے تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن بہت بڑا انصاف پسند طبقہ اس بات کو دل سے تسلیم کر رہا ہے کہ کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا ایک تاریخی یاترا ہے اور حقیقی معنوں میں اس کے توسط سے پورا ملک ایک لڑی میں پرو اٹھا ہے۔ حالانکہ جب انھوں نے اس یاترا کا اعلان کیا تھا یا اسے شروع کیا تھا تو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس یاترا کے کچھ اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ اس کا بھی کوئی اندازہ نہیں تھا کہ ملک کے عوام اسے کس طرح لیں گے اور اس سے خود کو وابستہ کرنے کی کوشش کریں گے یا ہمیشہ کی طرح راہل کا مذاق اڑا کر اسے مسترد کر دیں گے۔

لیکن اب جبکہ یاترا نے تقریباً نصف سفر مکمل کر لیا ہے تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ محض ایک یاترا نہیں ہے بلکہ یہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایک انوکھا باب رقم کر رہی ہے۔ یہ یاترا جہاں جہاں سے گزر رہی ہے ہر قسم کے امتیازات کو مٹا کر آگے بڑھ رہی ہے۔ نہ کوئی چھوٹا ہے نہ بڑا۔ نہ تعلیم یافتہ نہ نا خواندہ۔ نہ بچہ نہ بزرگ۔ نہ مرد نہ عورت۔ سب اس یاترا کے یاتری ہیں، اس قافلے کے مسافر ہیں۔ جب یہ یاترا شروع ہوئی تھی تو اس کا بھی کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس میں کتنے لوگ شامل ہوں گے۔ لیکن اب تو صورت حال یہ ہے کہ لوگ جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں اور جن علاقوں سے یاترا کے گزرنے کا پروگرام نہیں ہے وہاں کے لوگوں کو شکایت ہو رہی ہے کہ یاترا وہاں سے کیوں نہیں گزر رہی ہے اور جن مقامات پر کم وقت کے لیے یاترا چل رہی ہے وہاں کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ان علاقوں کو اور وقت دیا جائے۔ گویا اب تو مجروح سلطانپوری کے شعر میں ذرا سی تحریف کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ”وہ اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر، لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا“۔


آگے بڑھنے سے قبل یہاں ایک بات کا ذکر ہو جائے جس پر کافی گفتگو ہو رہی ہے اور وہ بات ہے راہل گاندھی کی داڑھی کا بڑھنا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب مغربی بنگال میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہو رہے تھے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنی داڑھی بڑھائی تھی۔ لیکن دونوں کی داڑھی میں فرق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی نے انتخابی فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی داڑھی بڑھائی تھی تاکہ وہ رویندر ناتھ ٹیگور کی شبیہہ اختیار کر سکیں اور اس بہانے بنگال کے عوام کو ٹیگور کی یاد دلا کر ان کے ووٹ حاصل کر سکیں۔ لیکن راہل گاندھی کی داڑھی کا انتخابی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کی داڑھی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اسے چھوڑ دیا گیا ہے یا وہ بنانے سے چھوٹ گئی ہے۔ راہل کو اتنا وقت نہیں مل رہا ہے کہ وہ شیونگ کر سکیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ تراش خراش والی داڑھی نہیں ہے بلکہ بے ترتیب داڑھی ہے۔ لہٰذا اس کا موازنہ مودی کی داڑھی سے نہیں کیا جا سکتا۔ بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دراصل راہل گاندھی اب ایک سنجیدہ سیاست داں ہو گئے ہیں۔ اب وہ پپو نہیں رہے۔ پپو تو چکنا چپڑا ہوتا ہے اس کے داڑھی نہیں ہوتی۔ راہل کی داڑھی یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ ایک پختہ کار سیاست داں ہو گئے ہیں۔


راہل گاندھی پر ان کے مخالفین یہ الزام عاید کرتے رہے ہیں کہ وہ ایک غیر سنجیدہ سیاست داں ہیں۔ پارٹ ٹائم سیاست داں ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں چھٹی پر چلے جاتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں بدیس چلے جاتے ہیں۔ لیکن اب ان الزامات کے منہ بند ہو گئے ہیں۔ بی جے پی یا کسی دوسری پارٹی کے کسی لیڈر نے اتنی بڑی پیدل یاترا نہیں کی تھی۔ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کی یاترا اور وہ بھی پیدل کوئی معمولی یاترا نہیں ہوتی۔ یاترا کے سلسلے میں متعدد ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں۔ ایک ویڈیو میں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یاترا کے دوران ایک بار وہ بریک کرکے دہلی گئے اور جب اپنے گھر پہنچے تو وہاں ان کا دل نہیں لگا۔ ان کا دل بار بار کہتا تھا کہ چلو کنٹینر میں۔ یاد رہے کہ راہل یاترا کے دوران کنٹینر میں قیام کرتے ہیں جو یاترا کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور اس میں آرام و آسائش کا سامان نہیں ہے۔ اس پر کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دراصل اب راہل گاندھی نے ہندوستانی عوام کے ساتھ تبادلۂ خیال اور رابطہ کاری شروع کر دی ہے۔ اب وہ جنتا کے درمیان پہنچ گئے ہیں اور جو جنتا کے درمیان پہنچ جاتا ہے وہ پھر وہیں کا رہتا ہے۔ اس سے الگ ہٹنے پر اس کی زندگی بے کیف ہو جاتی ہے۔ تو گویا اب راہل گاندھی عوامی رہنما بن گئے ہیں۔


کچھ لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ یاترا بی جے پی اور بالخصوص نریندر مودی کے پروگراموں کے مانند ایونٹ مینجمنٹ تو نہیں ہے۔ یعنی یہ کوئی ڈرامہ تو نہیں ہے جو راہل گاندھی کھیل رہے ہیں۔ اس پر غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی یاترا کوئی ایونٹ مینجمنٹ نہیں ہو سکتی۔ ایونٹ مینجمنٹ کا مطلب ہے کہ ٹی وی کیمرے وغیرہ کا انتظام کرکے کچھ کرنا۔ مبصرین کے مطابق راہل گاندھی کا اپنی ماں سونیا گاندھی کے جوتے کا فیتہ باندھنا، یاترا کے دوران زمین پر گر جانے والی بچی کو اٹھانا اور سہلانا، کسی چھوٹی سی بچی کو سینے سے لگانا، معمر خواتین کو سینے سے چمٹانا، مقامی ثقافتوں کو اپنانا، ایک بچے کو کراٹے کے داؤ سکھانا، دونوں ہاتھوں سے محروم ایک نوجوان مستری کے ہاتھوں موٹر سائیل کو ٹھیک کرتے ہوئے دیکھنا اور اس جیسے دیگر مواقع کسی ایونٹ مینجمنٹ کا حصہ نہیں ہو سکتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایونٹ مینجمنٹ تو مودی کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں دو ایسے مواقع آئے جب مودی کے قافلے نے ایمبولنس کو راستہ دیا۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم کے قافلے کے راستے میں ایمبولینس کیسے آجاتی ہے۔ جب وزیر اعظم کا قافلہ کہیں سے گزرنے والا ہوتا ہے تو کم از کم نصف گھنٹہ قبل ہی دو تین کلومیٹر دور سے ہی تمام راستے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ ایسے میں کوئی گاڑی نہیں گھس سکتی۔ ایمبولینس بھی نہیں۔ پھر ایمبولینس کیسے آجاتی ہے۔ یہ ہے ایونٹ مینجمنٹ۔ یعنی پروگرام میں ایمبولینس کو بھی شامل رکھا جاتا ہے کہ تم فلاں جگہ رہنا اور جب وزیر اعظم کا قافلہ گزرنے والا ہو تو سڑک پر آجانا تاکہ تمھیں وزیر اعظم کا قافلہ راستہ دے سکے۔


لیکن راہل گاندھی کی یاترا میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ جو کچھ ہے وہ سب فطری ہے۔ کوئی بناوٹ نہیں ہے۔ کوئی تصنع نہیں ہے۔ ووٹ کی سیاست کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اسی لیے ان کی یاترا ان ریاستوں سے نہیں گزر رہی ہے جہاں انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان کے ساتھ نیشنل میڈیا بھی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ جتنا بڑا پروگرام ہے اس کی بڑے پیمانے پر کوریج ہونی چاہیے تھی لیکن نہیں ہو رہی ہے۔ ہاں راہل گاندھی کے ساتھ سوشل میڈیا ہے۔ وہ پل پل کی خبر عوام تک پہنچا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق اگر نیشنل میڈیا اس یاترا کو کور کر رہا ہوتا تو آج پورے ملک کا ماحول بدل گیا ہوتا اور اگر کسی چیز کی چرچا ہو رہی ہوتی تو وہ یاترا کی ہو رہی ہوتی۔ لیکن چونکہ میڈیا حکومت کا حاشیہ بردار ہو گیا ہے لہٰذا اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ اس یاترا کو کور کر سکے۔ یہاں یہ بات بھی درج کر دینا ضروری ہے کہ جب یاترا شروع ہوئی تھی تو بی جے پی والے اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ لیکن اب اس کی کامیابی دیکھ کر ان کے ہوش اڑ گئے ہیں اور انھیں چپی لگ گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔