یوم اقبال و آزاد اور یوم اردو... سہیل انجم
مولانا ابوالکلام آزاد کا دن منانا بھی ہمارے اوپر لازم ہے۔ بلکہ انھیں یاد کرنے کے لیے تو کسی خاص ”دن“ کی بھی ضرورت نہیں۔ ان کی خدمات اتنی وسیع ہیں کہ ہمیں تو انھیں روز ہی یاد کرنا چاہیے۔
9 نومبر علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے اور 11 نومبر مولانا آزاد کا۔ ہمیں جتنے جوش و خروش سے اقبال کا یوم پیدائش منانا چاہیے اتنے ہی جوش و خروش سے یوم آزاد بھی منانا چاہیے۔ یوم اقبال پر یوم اردو بھی منایا جا رہا ہے جس کا آغاز ایک تنظیم ”اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن“ کے سربراہ ڈاکٹر سید احمد خاں نے 25 سال قبل کیا تھا۔ لیکن امسال کم از کم یہ بھی ہونا چاہیے کہ اتنے ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ جوش و خروش سے یوم اردو صحافت بھی منایا جائے۔ یہ حسین اتفاق ہے کہ سال 2022 اردو صحافت کے دو سو سال پورے ہونے کا سال ہے۔ حالانکہ اردو صحافت کی دو صدی مکمل ہونے پر دہلی و بیرون دہلی میں متعدد پروگراموں کا انعقاد ہو چکا ہے اور کچھ مزید پروگرام اور کانفرنسیں کی جا رہی ہیں۔ جن میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں تیرہ سے پندرہ نومبر تک ایک بین الاقوامی کانفرنس بھی شامل ہے۔ اس کانفرنس میں ملک و بیرون ملک سے بڑی تعداد میں اردو، انگریزی اور ہندی کے صحافی شامل ہو رہے ہیں۔ تاہم چونکہ اردو کا پہلا اخبار ”جام جہاں نما“ 27 مارچ 1822 کو جاری ہوا تھا اس لیے یہ سلسلہ اگلے سال مارچ تک بھی جاری رہے تو بہتر ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کیجریوال کا ’سیاسی دھرمانترن‘... سہیل انجم
علامہ اقبال کے نظریات کے بارے میں لوگوں میں بہت غلط فہمیاں ہیں۔ بلکہ جان بوجھ کر غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں۔ ہندوستان میں بعض افراد نے یہ شوشہ چھوڑ کر اقبال کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔ پاکستان کے بہت سے دانشور بھی اس کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا نہ تو مطالبہ کیا تھا اور نہ ہی اس کی وکالت کی تھی۔ انھوں نے اس اندیشے کے پیش نظر کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کیا جائے گا اپنے خطبات میں یہ رائے دی تھی کہ ہندوستان کے مسلم اکثریتی خطوں کا انتظام و انصرام مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر ان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حالانکہ اقبال نے ہندوستان سے محبت کے سلسلے میں جتنی اور جیسی نظمیں لکھی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کے ترانۂ ہندی ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ کا جواب آج تک پیدا نہیں ہو سکا۔ اقبال کی مخالفت کرنے والے بھی یہ ترانہ گانے پر مجبور ہیں اور اس کی انفرادیت کے پیش نظر ہی سرکاری تقریبات میں بھی اسے گایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اقبال نے یہ لکھ کر کہ ”خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے“ حب الوطنی کی جو مثال پیش کی ہے اس کا کوئی جواب نہیں۔ ان کا یہ مصرع کہ ”مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا“ اور یہ شعر ”ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز، اہل وطن سمجھتے ہیں ان کو امام ہند“ بین المذاہب ہم آہنگی کی اتنی اعلیٰ مثالیں ہیں کہ ان کا بھی کوئی جواب پیش نہیں کیا جا سکا۔ لہٰذا نہ صرف اردو والوں کو بلکہ ہندی والوں کو بھی اور حکومت کو بھی یوم اقبال منانا چاہیے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا دن منانا بھی ہمارے اوپر لازم ہے۔ بلکہ انھیں یاد کرنے کے لیے تو کسی خاص ”دن“ کی بھی ضرورت نہیں۔ ان کی خدمات اتنی وسیع ہیں کہ ہمیں تو انھیں روز ہی یاد کرنا چاہیے۔ انھوں نے دو قومی نظریہ اور قیام پاکستان کی شدت سے مخالفت کی تھی۔ انھوں نے مسلمانوں کے ملک کے قیام کے بعد جن خدشات اور اندیشوں کا اظہار کیا تھا وہ سب یکے بعد دیگرے سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ مولانا آزاد کی خدمات پر تو جانے کتنی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ انھوں نے جنگ آزادی میں قید و بند کی صعوبتیں تو برداشت ہی کی تھیں آزاد ہندوستان میں بھی انھیں کم پریشانیوں سے نہیں گزرنا پڑا تھا۔ بہرحال اس وقت اس کے ذکر کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ ذکر ضرور ہونا چاہیے کہ انھوں نے وزیر تعلیم کی حیثیت سے جو خدمات انجام دیں اور جتنے تعلیمی ادارے قائم کیے ان کے بعد کوئی اور وزیر تعلیم نہیں کر سکا۔ لیکن متعصبانہ سیاست و ذہنیت کو کیا کہا جائے کہ موجودہ حکومت میں بڑی مشکل سے ان کا نام لیا جاتا ہے۔
اب یوم اردو منانے کا سلسلہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ان ملکوں میں بھی چل پڑا ہے جہاں اردو خواں افراد موجود ہیں۔ اس موقع پر اردو کے درخشاں ماضی کو یاد کیا جاتا ہے۔ اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دینے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے اور اردو کی موجودہ صورت حال کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ اس موقع پر اہل اردو کے رویے پر بھی نظر ڈالی جاتی ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اپنی زبان اردو کے تعلق سے کتنے مخلص ہیں۔ وہ اردو کی ترویج کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ وہ خود اردو پڑھتے ہیں یا نہیں۔ اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دلواتے ہیں یا نہیں۔ اردو تعلیم کے حصول کے لیے دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں یا نہیں۔ وہ اردو کے اخبارات خریدتے ہیں یا نہیں۔
بہرحال ہمیں جہاں اردو کے درخشاں ماضی کو یاد کرنے کی ضرورت ہے وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم برادران وطن کو اور خاص طور پر غیر اردو داں طبقات کو یہ بتائیں کہ اردو زبان نے ملک کو آزادی دلانے میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ بے مثال ہیں۔ اردو اخباروں اور ان کے مدیروں نے جن صعوبتوں کو برداشت کیا دوسری زبان کے صحافیوں نے نہیں کیا۔ وہ مولانا حسرت موہانی کا رسالہ ”اردوئے معلی“ ہی تھا جس نے پہلی بار مکمل آزادی یا پورن سوراج کا نعرہ بلند کیا تھا۔ اس سے پہلے کسی نے بھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا۔ مولوی باقر اردو کے ہی صحافی تھے جنھیں ان کے حریت پسندانہ خیالات کی وجہ سے توپ سے اڑا دیا گیا تھا۔ کسی دوسری زبان کے صحافی کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوا۔ ایک اخبار ”سوراجیہ‘‘ تھا جو الہ آباد سے نکلتا تھا۔ اس کے چار ایڈیٹروں کو کالے پانی کی سزا ہوئی تھی۔ یہ اعزاز بھی کسی دوسری زبان کی صحافت کو حاصل نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں : پاکستان پھر مارشل لا کی راہ پرگامزن...ظفر آغا
اردو زبان کی صحافت کو دوسری زبانوں کے مقابلے میں کئی اولیات حاصل ہیں۔ لہٰذا ہمیں جو کہ اردو والے ہیں یوم اردو کے ساتھ ساتھ یوم اردو صحافت بھی منانا چاہیے۔ اگر اس کے لیے 27 مارچ کی تاریخ مقرر کر دی جائے تو بہت اچھی بات ہوگی۔ حق تو یہ ہے کہ سرکاری سطح پر بھی یوم اردو صحافت منایا جائے۔ لیکن نہ تو پہلے اس پر غور کیا گیا او نہ ہی اب کیا جا رہا ہے۔ اب جو حالات ہیں ان میں اس پر غور کرنے کی اور بھی کسی کو ضرورت نہیں ہے۔ حکومت سے تو کوئی توقع نہیں کم از کم اہل اردو کو تو اس سلسلے میں پیش رفت کرنی چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔