پوری دنیا کو کرنا پڑ سکتا ہے ڈیزل بحران کا سامنا، آنے والے دنوں میں قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کا اندیشہ، لیکن کیوں؟
ڈیزل کے ممکنہ بحران کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گلوبل ایکسپورٹ مارکیٹ میں ایسا ڈیزل بحران ہے کہ پاکستان جیسے ملک کو گھریلو ضرورتوں کے لیے سپلائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دنیا میں کئی ممالک اس وقت معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، مثلاً گزشتہ کچھ سالوں میں کووڈ وبا کی مشکلیں اور روس-یوکرین جنگ۔ اب ایسے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ پوری دنیا کی معیشت کو رفتار فراہم کرنے میں بطور ایندھن استعمال کیا جانے والا ’ڈیزل‘ مہنگا ہو سکتا ہے۔ دراصل ڈیزل سے ہی ٹرک، بسیں، جہاز اور ٹرینیں چلتی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیزل کا استعمال کنسٹرکشن، مینوفیکچرنگ کے علاوہ زرعی شعبہ میں بھی کیا جاتا ہے۔ سرد ممالک میں گھروں کو گرم رکھنے کے لیے بھی ڈیزل کا استعمال کیا جاتا ہے اور جب قدرتی گیس کی قیمت آسمان چھو رہی ہے تو ایسے میں کئی جگہ ڈیزل کا استعمال گیس کی جگہ کیا جا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آنے والے مہینوں میں ڈیزل کی سپلائی میں کمی ہوگی جس سے دنیا کے ہر انرجی مارکیٹ میں ڈیزل کا بحران پیدا ہو جائے گا۔
ظاہر ہے کہ ڈیزل کا بحران بڑھے گا تو اس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ بھی ہوگا۔ اس سے سرد ممالک میں گھروں کو گرم رکھنے کے لیے موٹی رقم خرچ کرنی پڑ سکتی ہے۔ دھیان دینے والی بات یہ بھی ہے کہ امریکہ میں صرف ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے سبب وہاں کی معیشت پر 100 ارب ڈالر کا مالی بوجھ بڑھنے کا اندازہ ہے۔ امریکہ میں ڈیزل اور ہیٹنگ آئل کا اسٹاک چار دہائیوں کی ذیلی سطح پر ہے۔ نارتھ ویسٹ یوروپ میں بھی اسٹاک کی کمی ہے۔ روس پر لگائی گئی معاشی پابندیوں کے عمل میں آنے کے بعد مارچ 2023 میں بحران مزید گہرا سکتا ہے۔
ڈیزل کے ممکنہ بحران کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گلوبل ایکسپورٹ مارکیٹ میں ڈیزل کا ایسا بحران ہے کہ پاکستان جیسے غریب ممالک کو گھریلو ضرورتوں کے لیے سپلائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نیو یارک ہاربر، جو کہ بنچ مارک ہے اس کے اسپاٹ مارکیٹ میں ڈیزل کی قیمتوں میں اس سال 50 فیصد کا اضافہ آ چکا ہے۔ نومبر میں 4.90 ڈالر فی گیلن قیمت پہنچ چکا ہے جو کہ ایک سال قبل کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ نارتھ ویسٹ یوروپ میں ڈیزل کے فیوچر کا ریٹ برینٹ کروڈ سے 40 ڈالر زیادہ ہے۔
کچھ لوگوں کے ذہن میں سوال ہے کہ آخر یہ کمی کیوں پیدا ہو رہی ہے۔ دراصل پوری دنیا میں ریفائننگ صلاحیت میں کمی آئی ہے۔ کروڈ آئل کی سپلائی کو لے کر بھی دقتیں ہیں۔ لیکن مشکلات میں تب اضافہ ہو جاتا ہے جب کروڈ کو پٹرول اور ڈیزل میں ریفائن کرنا پڑتا ہے۔ کورونا وبا کے دوران طلب گھٹنے کے بعد ریفائننگ کمپنیوں نے کئی کم منافع دینے والے اپنے پلانٹس کو بند کر دیئے۔ 2020 کے بعد سے امریکہ کی ریفائننگ صلاحیت ایک ملین بیرل روزانہ کم ہو گئی ہے، جبکہ یوروپ میں شپنگ ڈسرپشن اور مزدوروں کی ہڑتال کے سبب ریفائننگ پر اثر پڑا ہے۔ روس سے سپلائی بند ہونے کے بعد دقتیں مزید بڑھنے والی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔