غزہ میں عوام بے حال، 50 ہزار لوگوں کے درمیان صرف 4 بیت الخلاء، محض 4 گھنٹے ملتا ہے پانی!

ڈاکٹرس وِداؤٹ بارڈرس کی نرس اور ایکٹیویٹی منیجر ایملی کیلاہن نے ایک انٹرویو میں راحتی کیمپوں کی روح فرسا حقیقتوں کو بیان کیا، انھوں نے کہا کہ فی الحال غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں۔

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

قومی آواز بیورو

غزہ میں جاری اسرائیلی حملے نے وہاں کے باشندوں کو بے حال کر دیا ہے۔ جو لوگ غزہ چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف گئے ہیں، ان کے لیے بھی حالات انتہائی خراب ہیں۔ راحتی کیمپوں کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ بیشتر راحتی کیمپوں میں موجود نرس اپنی زندگی داؤ پر لگا کر لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔

ایک میڈیا رپورٹ میں جنگ کے دوران گراؤنڈ زیرو سے بچائی گئی خاتون نرس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ غزہ پٹی میں رکے ہوئے فلسطینی ڈاکٹرس اور نرس حقیقی معنوں میں ہیرو ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان نرسوں کو پتہ ہے کہ وہ کبھی بھی مارے جا سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انھوں نے وہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔


ڈاکٹرس وِداؤٹ بارڈرس کی نرس اور ایکٹیویٹی منیجر ایملی کیلاہن نے سی این این کو ایک انٹرویو دیا ہے۔ اس انٹرویو کے دوران انھوں نے بتایا کہ راحتی کیمپوں کی حقیقت خوفناک اور روح فرسا ہے۔ کیلاہن کے مطابق فی الحال غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کیلاہن گزشتہ بدھ کو غزہ سے نکالے جانے کے بعد ویکینڈ پر امریکہ لوٹ گئیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ واپس آ کر وہ کیسا محسوس کر رہی ہیں، انھوں نے کہا کہ ’’سچ کہوں تو مجھے اس بات کی راحت ہے کہ میں اپنے کنبہ کے ساتھ گھر پر ہوں اور 26 دنوں میں پہلی بار محفوظ محسوس کر رہی ہوں۔ (لیکن) مجھے ان میں سے کسی بھی چیز سے خوشی نہیں مل پا رہی ہے۔ کیونکہ میرے محفوظ رہنے کا مطلب (متاثرین) لوگوں کو پیچھے چھوڑنا ہے۔‘‘

غزہ کے راحتی کیمپوں میں کام کرنے والی نرس کیلاہن کا کہنا ہے کہ حفاظت کی فکر کے سبب انھیں 26 دنوں میں تقریباً 5 مرتبہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’جن مقامات پر ہم پہنچے ان میں سے ایک کمیونسٹ ٹریننگ سنٹر تھا۔ وہاں 35 ہزار داخلی طور پر نقل مکانی کرنے والے لوگ تھے۔ وہاں ایسے بچے تھے جن کے چہرے، گردن اور ہاتھ پیر بری طرح جل گئے تھے۔ چونکہ اسپتال زخمیوں سے بہت زیادہ بھرے ہوئے ہیں اس لیے انھیں فوراً چھٹی دے دی جا رہی ہے۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’’کئی ایسے لوگ ہیں جن کے اعضا کٹ چکے ہیں، جلے ہوئے تازہ زخم لے کر وہ لوگ گھوم رہے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو ہمارے پاس لا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ’برائے کرم ہماری مدد کیجیے!‘ لیکن ہمارے پاس (دواؤں کی) سپلائی نہیں ہے۔‘‘ راحتی کیمپ کی حالت بیان کرتے ہوئے کیلاہن کہتی ہیں کہ 50 ہزار سے زیادہ لوگوں والے کیمپ میں صرف 4 بیت الخلاء ہیں۔ وہاں ایک دن میں 4 گھنٹے ہی پانی کی سپلائی ہوتی ہے۔


جب کیلاہن سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ غزہ واپس جائیں گی؟ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’’میرے دل کی دھڑکن کہتی ہے کہ میرا دل غزہ میں ہے۔ یہ غزہ میں ہی رہے گا۔ جن فلسطینی لوگوں کے ساتھ میں نے کام کیا، وہ میری زندگی میں ملے سب سے حیرت انگیز لوگوں میں سے کچھ اہم افراد تھے۔‘‘ کیلاہن کا کہنا ہے کہ جب بھی انھوں نے قومی ملازمین سے سوال کیا کہ کیا وہ باہر نکلے ہیں، تو واحد جواب تھا ’یہ ہمارا طبقہ ہے، ہمارا کنبہ ہے، یہ ہمارے دوست ہیں۔ اگر وہ ہمیں مارنے جا رہے ہیں تو ہم جتنا ممکن ہو اتنے لوگوں کو بچاتے ہوئے مریں گے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔