تکلیف دہ ہجرتوں سے نجات کےلئے باہمی تنازعات کا سیاسی حل وقت کی اہم ضرورت
آتشیں تصادم اور قتل و غارت گری کے نتیجے میں ایک طرف جہاں لاکھوں کی تعداد میں انسانی جان و مال کا زیاں ہوا ہے، شہر کے شہر کھنڈر میں تبدیل ہو گئے ہیں، وہیں دوسری طرف معاشرتی زندگی تباہ ہو کر رہ گئی ہے
واشنگٹن: سنیچر کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام مہاجروں کا عالمی دن منایا جائے گا۔ اس کے پس منظر میں دنیا کے وہ مختلف علاقے ہوں گے جہاں حالیہ دہائیوں میں بدترین خانہ جنگیوں، آتشیں تصادم اور قتل و غارت گری کے نتیجے میں ایک طرف جہاں لاکھوں کی تعداد میں انسانی جان و مال کا زیاں ہوا ہے، شہر کے شہر کھنڈر میں تبدیل ہو گئے ہیں، وہیں دوسری طرف معاشرتی زندگی تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ کروڑوں کی تعداد میں بے گھر ہوجانے والوں کو، جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے، محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں ہجرت پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
دوسرے ملکوں اور علاقوں میں ایسے بدنصیب لوگ کیمپوں اور کچی بستیوں میں انتہائی تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ سنیچر 20 جون کو مہاجروں کا عالمی دن، ان کے مسائل کا احاطہ کرنے کا انیسواں موقع ہوگا۔ یہ سلسلہ 2001 میں شروع کیا گیا تھا۔ اس دن مہاجروں کی حالت زار کا جائزہ لینے کے ساتھ ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔ حالات کے تازہ موڑ پر بعض مبصرین کا ایک تاثر یہ ہے کہ اس انسانی المیے کو جسے کووڈ- 19 نے ایک نئی جہت دیدی ہے، دائمی طور پر حل کرنے کے لئے باہمی تنازعات کا سیاسی حل ڈھونڈنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اس دور میں جن ملکوں کے بے گناہ لوگ اپنی سرزمین چھوڑ کر بے دخل ہونے پر مجبور ہوئے ان میں افغانستان، شام، عراق، یمن، برما اور افریقہ کے کئی ممالک شامل ہیں۔ یاد رہے کہ برما میں نسلی فسادات کی وجہ سے تقریباً دس لاکھ برمی بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ وائس آف امریکہ نے اس پس منظر میں چیلنجوں اور اگلے محاذوں اور اس سے پرے دوسرے شعبوں میں مہاجروں کی خدمات کا جائزہ لیا ہے۔ مہاجروں کے لئے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے دفتر میں اطلاعات کے عالمی شعبے کے جان ویلیمز کے حوالے سے وائس آف امریکہ نے خبر دی ہے کہ کرونا وائرس نے پہلے ہی سے مشکلات میں گھرے ہوئے بے خانماں لوگوں کو ایک اور چیلنج سے دو چار کر دیا ہے۔
اب یہ ہو رہا ہے کہ اس عالمگیر وبا کی وجہ سے بین اقوامی تنظیمیں ان سے زیادہ رابطہ پیدا نہیں کر پا رہی ہیں۔ ایسے علاقوں میں یمن بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کریس بویان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جنگ کے شکار اس ملک میں 80 فیصد لوگ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ انھوں نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ جنگ و جدل نے دنیا بھر میں تقریباً سات کروڑ دس لاکھ لوگوں کو ان کے گھر بار سے محروم کردیا ہے۔ ان کی ضروریات کو پورا کرنے اور قتل و غارت گری سے پاک ماحول میں انھیں اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر بین الاقوامی کوششوں کی ضرورت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Jun 2020, 2:45 PM