آیت اللہ علی خامنہ ای کی بھانجی نےحکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کی

مرادخانی کی والدہ بدری خامنہ ای ایران کے موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی بہن ہیں۔انھوں نے حکومت کو’’قاتل اوربالخصوص بچّوں کوقتل کرنے والی قراردیاہے‘‘۔

فریدہ مراد خانی
فریدہ مراد خانی
user

قومی آواز بیورو

ایران کے سپریم لیڈر کی بھانجی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی بے باک ناقد فریدہ مراد خانی نے ملک میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور عالمی برادری سے ایرانی مظاہرین کے ساتھ کھڑا ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ مراد خانی کی والدہ بدری خامنہ ای ایران کے موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی بہن ہیں۔ انھوں نے ایرانی حکومت کو ’’قاتل اور بالخصوص بچّوں کو قتل کرنے والی قرار دیا ہے‘‘۔

انھیں گزشتہ ہفتے گرفتارکرلیا گیا تھا اور وہ سنیچر کو سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں بول رہی تھیں۔ ریڈیو فردا کے مطابق انھوں نے اپنی گرفتاری سے ایک دن قبل یہ ویڈیو ریکارڈ کی تھی۔مراد خانی نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ تمام آزادی پسند ممالک علامتی اشارے کے طور پر ایران سے اپنے تمام سفارتی نمائندوں کو واپس بلا لیں اور اس ظالم حکومت کے نمائندوں اور اس سے وابستہ افراد کو اپنے ممالک سے نکال دیں۔ اس طرح ایران کے آزادی پسند عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔


انھوں نے اقوام متحدہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’عالمی ادارے نے بہادرایرانیوں پر ہونے والے اس واضح جبرو تشدد کے مقابلے میں کیا کیا ہے؟ ماسوائے افسوس، چند اظہاریہ اور مختصر غیر مؤثر بیانات کے؟‘‘ مراد خانی نے کہا کہ ایرانی غیرملکی مداخلت نہیں چاہتے اور وہ باہر سے مدد کے بغیر حکومت کا تختہ الٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ غیرملکی حکومتیں ایرانی حکومت کو زندہ رکھنے میں مدد دینا بند کر دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آزاد اور بہادر ایرانی اس جابرحکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بیرونی لوگ حکومت کی حمایت نہ کریں۔ مراد خانی کے بھائی نے گزشتہ ہفتے ٹوئٹر پر اطلاع دی تھی کہ حکام نے بدھ کے روز ان کی بہن کو گرفتار کر لیا ہے۔ وہ ماضی میں بھی حکومت کی ناقد رہی ہیں اور انھیں اس سال کے اوائل اور 2018 میں دو الگ الگ مواقع پر گرفتار کیا گیا تھا۔


مہسا امینی کی پولیس کے زیر حراست موت کے بعد سے جاری احتجاجی مظاہرے اب آیت اللہ علی خامنہ ای کے زیرقیادت حکومت کے لیے ایک بڑا درد سر بن چکے ہیں اور مظاہرین اب حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ناقدین کے مطابق یہ احتجاجی تحریک 1979 میں برپا شدہ انقلاب کے بعد سے حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔

اوسلو میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) کے مطابق مظاہروں میں سیکورٹی فورسز نے 51 بچّوں اور27 خواتین سمیت 416 افراد کو ہلاک کیا ہے۔ ایرانی حکومت بیرونی طاقتوں بالخصوص امریکا اور اسرائیل پر ان مظاہروں کو شہ دینے کا الزام عاید کرتی ہے۔

(بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ) 

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔