عالمی آواز: عرب سربراہوں نے ٹرمپ اور نیتن یاہو کو اپنے کاندھے دے دیئے...سید خرم رضا
عرب سربراہوں کی عوامی مقبولیت میں کمی واقع ہوگی لیکن کیونکہ ان کی شاہی کرسیوں کی ٹانگیں امریکی ’زمین‘ پر ٹکی ہوئی ہیں اس لئے ان کو اقتدار میں بنے رہنے کی مجبوری میں زہر کا یہ گھونٹ پینا ہی پڑے گا
مسلم دنیا میں آج کل سب سے زیادہ جس موضوع پر بحث ہو رہی ہے وہ ہے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے تعلقات میں اچانک آئی بہتری۔ صرف متحدہ عرب امارات کی بات کیوں؟ سعودی عرب نے بھی اچانک اسرائیل کی پروازیں متحدہ عرب امارات جانے کے لئے اپنی فضائی حدود کھول دیں اور اپنے اس قدم کا جواز پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کو میٹھی گولی دی اور کہا کہ اس نے دنیا کے تمام ممالک کے لئے اپنی فضائی حدود کھول دی ہیں۔
عرب ممالک کے علاوہ جنوبی مشرقی یورپی ملک ’کوسوو‘ نے بھی اسرائیل کے ساتھ نہ صرف اچانک سفارتی تعلقات شروع کر دیئے بلکہ اسرائیل کی اس خواہش پر بھی رضامندی کا اظہار کر دیا کہ وہ اپنا سفارتخانہ تل ابیب کے بجائے یروشلم میں کھولے گا۔ سربیا، جس ملک سے علیحدہ ہو کر کوسوو کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت حاصل ہوئی تھی، اسے اسرائیل کا قریبی مانا جاتا ہے۔ دراصل اسرائیل نے کوسوو کو اس لئے منظوری نہیں دی تھی کیونکہ وہ سربیا سے علیحدگی کی تحریک کے بعد قائم ہوا تھا اور اسرائیل نے خود بھی فلسطین پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اکثر وہاں کے لوگوں پر طاقت کا استعمال کرتا آ رہا ہے۔ ایسے حالات میں اسرائیل کا کوسوو کو منظوری دینا اس کے لئے اپنے پیر میں کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ خیال رہے کہ کوسوو ایک مسلم اکثریتی ملک ہے۔
متحدہ عرب امارات سے اسرائیل کا تاریخی معاہدہ، سعودی عرب کا اپنی فضائی حدود سے اسرائیلی پرواز کو گزرنے کی اجازت دینا، خانہ کعبہ کے امام شیخ عبدالرحمٰن السدیس کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر اعتراض ظاہر نہ کرنا، دو حریف ملکوں کوسوو اور سربیا کا یک بیک اسرائیل کو دوست بنا لینا عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر نظر آ رہا ہے۔ ان حالات کو سمجھنے کے لئے مرکزی کرداروں اور سلسلہ واقعات پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ جہاں تک کہانی کے مرکزی کرداروں کا سوال ہے تو وہ ہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو اور یہ دونوں ہر معاہدہ کے پس منظر میں موجود رہے۔ اب ذرا سلسلہ واقعات پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں۔
امریکہ میں نومبر میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں۔ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ہیں اور اپنی حریف سیاسی جماعت یعنی ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن سے کافی پیچھے نظر آ رہے ہیں۔ معیشت کے معاملہ میں تو پوری دنیا کا ہی برا حال ہے تو اکیلے امریکہ کے لئے کیا کہنا! لیکن کورونا وبا کی وجہ سے جو وہاں کے طبی حالات ہیں اس کو لے کر ٹرمپ انتظامیہ پر زبردست تنقید ہو رہی ہے۔ تنقید کی وجہ بھی غلط نہیں ہے کیونکہ دنیا کا سب سے ترقی یافتہ اور طاقتور ملک ہونے کے باوجود کورونا کے معاملات اور اس سے ہونے والی اموات میں یہ سر فہرست ہے۔ ادھر دوسرے مرکزی کردار اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ نیتن یاہو کو پچھلے انتخابات میں جب شکست کا سامنا ہوا تو اپنے حریف کے ساتھ ہاتھ ملا کر مخلوط حکومت قائم کر لی لیکن ان کے خلاف جو بدعنوانی کے الزامات ہیں اور جن کو لے کر عدالتی اور سیاسی جنگ جاری ہے اس میں ان کی حالت خراب نظر آ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : چین سے ہماری زمین کب واپس لے گی مودی حکومت: راہل گاندھی
الغرض دونوں مرکزی کرداروں کو سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات جیتنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور اس کے لئے ہی انہوں نے اپنے عرب دوستوں کا استعمال کیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ عرب اور اسرائیل کے تاریخی معاہدہ کی وجہ سے ان کی اندرون امریکہ اور عالمی دنیا میں واہ واہی ہو۔ اسی طرح کوسوو اور سربیا پر دباؤ بنا کر ان کے تعلقات کی بہتری کا سہرا بھی وہ اپنے سر باندھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس کا انہیں یہ فائدہ ہوگا کہ انتخابات میں امریکی یہودیوں کی حمایت اور ان کا پیسہ ان کو مل جائے گا، نیز انہیں نوبل امن انعام کے لئے بھی نامزد کیا گیا ہے۔
اس سب سے ٹرمپ کا ہی فائدہ نہیں ہے بلکہ بنجامن نیتن یاہو کا بھی برابر کا فائدہ ہوگا۔ ان معاہدوں کے بعد نیتن یاہو کا اسرائیل میں سیاسی قد بحال ہوگا اور اس کو وہ اس طرح پیش کرنے کی کوشش کریں گے جیسے انہوں نے عرب سربراہوں کو مجبور کر دیا ہو، چاہے صورتحال اس کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔
عرب سربراہوں کی عوامی مقبولیت میں کمی واقع ہوگی لیکن کیونکہ ان کی شاہی کرسیوں کی ٹانگیں امریکی ’زمین‘ پر ٹکی ہوئی ہیں اس لئے ان کو اقتدار میں بنے رہنے کی مجبوری میں زہر کا یہ گھونٹ پینا ہی پڑے گا۔ ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب میں زبردست اصلاحات کا عمل جاری ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات سعودی عوام کا مطالبہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے امریکی اور اسرائیلی دباؤ ہے، جو خاشقجی کے قتل کے بعد مزید بڑھ گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے حکمران پہلے ہی مغرب کی راہ پر گامزن ہیں اس لئے ان کے اوپر بھی بہت دباؤ ہے۔ کورونا وبا کے اس بحران نے جہاں سب کی طاقت اور ترقی کی قلعی اتار کر رکھ دی ہے اور سب کو برابر لا کر کھڑا کر دیا ہے ایسے میں عرب سربراہوں کے پاس موقع تھا کہ وہ اپنی بات اور طاقت منواتے لیکن انہوں نے دوسرے کی لڑائی کے لئے اپنے کندھے ایسے افراد کو استعمال کے لئے دے دیئے جن کی مقبولیت اپنی عوام میں ختم ہو رہی ہے اور وہ سوالوں کے گھیرے میں کھڑے ہوئے ہیں۔ کھوکھلی قیادت سے دور اندیشی کی امید کبھی نہیں رکھنی چاہئے اور ایسی قیادت کے نقصانات بڑے وسیع ہوتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔