بہت یاد آئیں گے آپ ظفر صاحب!...اعظم شہاب
قوت ارادی کا ایک مجسمہ ظفر صاحب 22 مارچ کی صبح تقریباً ساڑھے 5 بجے وقت کی ٹرین کی زنجیر کھینچ کر اتر گئے۔ ان کی شفقت، ملک کے حالات پر تشویش اور امید افزا مضامین ہمیشہ ہمارے دلوں کو منور رکھیں گے
زیادہ نہیں، بس دو بار ہی مل سکا تھا ظفر صاحب سے مگر یہ دو ملاقاتیں بھی ایسی تھیں جو یادوں کے شو کیش میں سج سی گئیں۔ وہ بہت بڑے ہونے کے باوجود مجھ جیسے بہت چھوٹے شخص کے ساتھ بھی ایک دوست کی طرح پیش آئے۔ دراصل بڑا ہونا اسی کو کہتے ہیں جو ایک چھوٹے میں بھی بڑکپن کا احساس پیدا کر دے۔ وگرنہ یہاں ممبئی سے لے کر دہلی تک تو بڑوں کا ایک جنگل سا نظر آتا ہے!
ظفر صاحب سے میری پہلی اور دوسری ملاقات، جو آخری بھی رہی، دہلی میں ’قومی آواز‘ کے دفتر میں ہوئی تھی۔ سید خرم رضا صاحب نے ان سے میرا ٹیلی فونک رابطہ کرایا تھا جو بہت جلد متاثر کن مقام تک پہنچ گئی تھی۔ وہ جب بھی فون کرتے بات کہیں سے بھی شروع ہو، اختتام ملک کے حالات پر اظہار تشویش سے ہی ہوتا۔ وہ مجھ سے کہا کرتے کہ یہ ملک اب رہنے لائق نہیں رہا، ہم نے یہاں اپنا کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیا مگر اب یہ زہر آلود ہو چکا ہے۔ موقع پرستی اور اقتدار کی ہوس نے اس ملک میں فرقہ واریت کا زہر گھول دیا ہے جو اب ہماری پیشانی تک آ پہنچا ہے۔
ظفر صاحب اپنے مضامین کی اشاعت کے بعد مجھے فون کر کے اپنے گروپ میں شیئر کرنے کے لیے کہتے۔ واقعتاً ان کے مضامین ایسے ہوتے تھے کہ انہیں پڑھنے کے بعد میں شیئر کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ ظفر صاحب ملک کے موجودہ حالات سے دلبراشتہ ہونے کے باوجود اپنے پڑھنے والوں میں امید کی کرن پیدا کر دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھلے ہی یہ زمین سنگلاخ ہو چکی ہے، مگر چشمہ بھی یہیں سے پھوٹے گا، بھلے ہی اس عمل میں کچھ وقت لگ جائے۔
یہ بھی پڑھیں : ظفر بھائی! کچھ یادیں، کچھ باتیں... سید حسین افسر
آخری ملاقات کے دوران انہوں نے ممبئی میں ایک ایسے پروگرام کے انعقاد کی بابت بات کی جس میں شہر کے عمائدین موجود ہوں۔ وہ قومی آواز کے دائرے کو مزید وسیع کرنا چاہتے تھے۔ ایک طرف ان کا یہ حوصلہ کہ ممبئی آ کر لوگوں سے ملاقات کریں اور دوسری جانب ان کی طبیعت جو ہمہ وقت ادویات کی مرہون منت تھی۔ سید خرم رضا صاحب کے بقول یہ ان کی قوت ارادی تھی جو انہیں رواں دواں رکھے ہوئے تھی۔
یہ بھی پڑھیں : اس دور کے گزرنے سے پہلے ظفر ہی گزر گئے!...بی این انیال
ظفر صاحب کے داخل اسپتال ہونے کی خبر بھی خرم صاحب کے ذریعے ملی تھی، جس کے ساتھ فون نہ کرنے کی ہدایت بھی تھی۔ 22 مارچ کی صبح میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ قوت ارادی کے اس مجسمہ کی خیریت دریافت کی جائے مگر واٹس ایپ پر خرم صاحب کا یہ پیغام موصول ہوا کہ 22 مارچ کی صبح تقریباً ساڑھے 5 بجے قوت ارادی کا یہ مجسمہ وقت کی ٹرین کی زنجیر کھینچ کر اتر چکا ہے۔ بہت یاد آئیں گے آپ ظفر صاحب!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔