شیر پر کیوں دہاڑ رہے ہیں لوگ؟ کاریگر کا ’ایک فیصد غلطی‘ کا اعتراف
اشوک ستون پر بنے شیروں کے چہروں کے تاثرات پر زبردست بحث چھڑ گئی ہے اور اب تو تاریخ کے اوراق دیکھے جا رہے ہیں، سوشل میڈیا پر اقتدار کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان زبانی جنگ جاری ہے۔
اشوک ستون کے شیروں کے سائز اور ان کے چہروں کے تاثرات پر شروع ہونے والا شور ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ لوگ زیادہ دہاڑ رہے ہیں۔ حزب اختلاف جہاں یہ سوال کر رہا ہے کہ ایسی تقریب میں صدر جمہوریہ اور نائب صدر جمہوریہ کو کیوں نہیں بلایا گیا، وہیں برسر اقتدار جماعت حز ب اختلاف کو اپنا نشانا بنا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اشوک ستون پر بنے شیروں کے چہروں کے تاثرات پر زبردست بحث چھڑ گئی ہے اور اب تو تاریخ کے اوراق دیکھے جا رہے ہیں، سوشل میڈیا پر اقتدار کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان زبانی جنگ جاری ہے۔
یہ تنازعہ ہے کیا؟
یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب وزیر اعظم نریندر مودی نے نو تعمیر شدہ پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازے پر نصب اشوک ستون کے شیروں کی نقل کی نقاب کشائی کی، جیسا کہ توقع تھی کہ میڈیا میں بھی اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی اور تصاویر منظر عام پر آگئیں۔
پہلے تو یہ جھگڑا ہوا کہ بودھ مت کے ماننے والے اشوکا ستون کی نقل کی نقاب کشائی کے موقع پر ویدک روایات کے مطابق پوجا کیوں کی گئی۔ لیکن اصل مسئلہ یا تنازعہ اس ستون کے شیروں کے تاثرات پر شروع ہوا۔ مختلف زاویوں سے لی گئی تصاویر سامنے آنے لگیں اور دعوے ہونے لگے کہ ان شیروں کے تاثرات جارحانہ ہیں، یہ وہ تاثرات نہیں ہیں جو اصل اشوکا ستون میں ہے۔
تنازعہ بڑھنے لگا اور سوشل میڈیا پر ردعمل کا طوفان آگیا۔ اپوزیشن لیڈر بھی اس میں کود پڑے اور بہت سے لوگوں نے الزام لگایا کہ اس نقل کی شکل اشوک کی لاٹ کے پرسکون شیروں کے مقابلے میں جارحانہ ہے۔ کچھ نے انہیں ہٹانے کا مطالبہ کیا تو کچھ نے قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔ جوابات بھی سامنے آنے لگے۔ ظاہر ہے کہ اقتدار کے حامی اس معاملے پر ہر اس عمل کا دفاع کرتے ہیں جس میں حکومت یا وزیر اعظم کا نام جڑا ہو۔
تازہ ترین ردعمل کا اظہار فلم اداکار انوپم کھیر نے کیا۔ ٹوئٹر پر شیروں کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ارے بھائی! شیر کے دانت ہوں گے تو دکھائے گا بھی! آخر آزاد ہندوستان کا شیر ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو کاٹ بھی سکتا ہے!
دوسری جانب سینئر صحافی شیلا بھٹ نے بھی اس معاملے پر اپنی رائے دی۔ انہوں نے کچھ نہیں کہا لیکن سارناتھ کے کھنڈرات کی تصویر شیئر کی اور لکھا کہ 2.15 میٹر (7 فٹ) کی اونچائی والا یہ ستون 1905 کا ہے اور اصلی ہے۔ اس تصویر میں اشوکا ستون بھی نظر آ رہا ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ اصل ستون ہے یا جسے عام لوگ اشوک کی لاٹ کہتے ہیں۔ ویسے اس تصویر پر کئی لوگوں نے لکھا کہ اب یہ ستون سارناتھ میوزیم کی خوبصورتی کو بڑھا رہا ہے۔
اس تنازعہ میں سب سے زیادہ آواز صحافی دلیپ منڈل کی ہے، جنہوں نے دلتوں کے مسائل کو بھرپور طریقے سے اٹھایا۔ انہوں نے پہلے ہی دن ان شیروں کے تاثرات پر سوال اٹھایا ۔ انہوں نے لکھا، "اشوکا ستون بودھ مت کی علامت ہے۔ اب یہ ایک قومی علامت ہے۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں اشوکا ستون نصب کرنے کے لیے برہمنوں کو بلانا اور وہاں پوجا نہ صرف تاریخ کی روایت کے خلاف ہے بلکہ غیر آئینی بھی ہے۔ اگر بلانا ہی تھا تو بودھ مت کے بھنتے جی کو بلاتے۔"
دریں اثنا، روزنامہ جاگرن نے اس موضوع پر اس کاریگر سے بات کی جس نے ان شیروں کی نقل تیار کی ہے۔ اخبار کے مطابق کاریگر سنیل دیورے کا کہنا ہے کہ ’’اسے بالکل اسی طرح رکھا گیا ہے جیسے اشوکا ستون میں رکھا گیا ہے۔ یہ 99 فیصد ویسا ہی ہے ۔ شیروں کو دیکھنے کے زاویہ کی وجہ سے تنازعہ ہو رہا ہے۔
یعنی ایک طرح سے یہ مان لیا جائے کہ ایک فیصد کی خرابی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سنیل دیور نے کہا کہ نقل کے سائز بڑے ہونے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ اس سے جڑی چھوٹی چیزوں کی طرف بھی جا رہی ہے۔ اگرچہ انہوں نے تسلیم کیا کہ اصل کام کو کچھ نقصان پہنچنے کی وجہ سے معمولی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں لیکن ہم نے اصل کی طرح نقل تیار کی ہے۔
اخبار کے مطابق شیروں کی نیچے سے تصویر لینے کے زاویے کی وجہ سے شیروں کے چہروں کے تاثرات میں تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نقل تیار کرنے سے پہلے وہ میوزیم گئے اور اس پر تحقیق کی۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اصل سائز سے صرف ڈھائی فٹ ستون بڑھایا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔