ہمیں کسی کے بجٹ کی ضرورت نہیں، آبی وسائل سے اپنی تمام مالی ضرورتیں پوری کر سکتے ہیں: عمر عبداللہ

عمر عبداللہ کا کہنا ہے جموں و کشمیر میں جو مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ دفعہ 370 سے نہیں بلکہ بندوق سے پیدا ہوئے ہیں جبکہ مذکورہ دفعہ ملک اور جموں و کشمیر کے درمیان ایک آئینی رابط تھا۔

عمر عبداللہ، تصویر یو این آئی
عمر عبداللہ، تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

سری نگر: نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ حکومت ہند اگر ہمیں دریاؤں کا استعمال خود کرنے دے گی تو ہمیں ان کا بجٹ نہیں چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خود ان پر بجلی پروجیکٹ تعمیر کریں گے اور بجلی فروخت کر کے جموں و کشمیر کو چلائیں گے۔ ان کا کہنا ہے جموں و کشمیر میں جو مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ دفعہ 370 سے نہیں بلکہ بندوق سے پیدا ہوئے ہیں جبکہ مذکورہ دفعہ ملک اور جموں و کشمیر کے درمیان ایک آئینی رابط تھا۔

عمر عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار ایک نیوز چینل کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو کے دوران کیا ہے۔ موصوف کی حاضر جوابی اور اعداد و شمار کی بنیاد پر جوابات دینے کی وجہ سے اس انٹرویو کو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا جا رہا ہے۔ نیشنل کانفرنس لیڈر نے جموں و کشمیر کا بجٹ اتر پردیش جیسی بڑی ریاست سے زیادہ ہونے کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ 'بجٹ کو ایک طرف چھوڑیں ہمیں ہمارے دریاؤں کو خود استعمال کرنے دیں ہم خود ان پر بجلی پروجیکٹ تعمیر کریں گے اور بجلی کو بیچیں کر جموں و کشمیر کو چلائیں گے اور ہمیں پھر آپ کا بجٹ نہیں چاہئے'۔


ان کا کہنا تھا کہ اگر جموں و کشمیر کا بجٹ زیادہ ہے تو جموں و کشمیر کئی شعبوں میں ملک کی بعض ریاستوں سے آگے بھی ہے۔ موصوف سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دفعہ 35 اے میں تصحیح کرنے کی ضرورت تھی لیکن اس کو ہرگز ہٹانا نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ ہٹانے کے بعد دعویٰ کیا گیا تھا کہ اب جموں و کشمیر میں ترقی ہوگی کشمیری مہاجر پنڈت واپس وطن لوٹیں گے لیکن دو برس بیت گئے کہیں بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ جموں و کشمیر میں جن پروجیکٹوں کا افتتاح کیا جا رہے ہیں وہ سب سابق حکومتوں کے دور میں منظور ہوئے تھے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ دفعہ 370 کے متعلق عدالت عظمیٰ میں ہماری عرضی پر اب تک کوئی سنوائی نہیں ہوئی جس میں کورونا وبا بھی کسی حد تک ذمہ دار ہے تاہم ہمیں یقین ہے ہمارا کیس آئینی و قانونی طور پر بہت مستحکم ہے۔


جموں وکشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق پر بات کرتے ہوئے موصوف نے کہا کہ 'ہم ہندوستان کی کشتی میں سوار ہوئے تھے لیکن کشتی میں سوار ہوتے وقت جو ہم سے وعدے کئے گئے ملک ان سے مکر گیا ہم سے کہا گیا تھا کہ جموں و کشمیر جب تک بھارت کا حصہ رہے گا تب تک آئین کے تحت اس کی خصوصی پوزیشن رہے گی، ہمیں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ یہ وعدے 70 یا 80 برس بیت جانے کے بعد ختم ہوں گے'۔ انہوں نے کہا کہ الحاق مشروط تھا اور اب اس کو واپس نہیں لیا جا سکتا ہے لیکن جن حالات میں یہ الحاق ہوا ان حالات کو بھی منسوخ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جموں وکشمیر پولیس کے حالیہ حکمنامے کہ سنگ بازی و دیگر امن و آشتی کے معاملات میں ملوث لوگوں کو پاسپورٹ و نوکریاں نہیں ملیں گی، کے بارے میں عمر عبداللہ نے کہا کہ 'مجھے 234 دنوں تک نظر بند رکھا گیا اور میری نظر بندی کو جائز قرار دینے کے لئے جو پولیس نے کیس تیار کیا اس میں کہا گیا کہ میں لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں، کل یہی کسی نوجوان کے ساتھ ہوگا جس کی وجہ سے وہ نوکری سے محروم ہو سکتا ہے'۔ انہوں نے کہا کہ جب ایک ایگزیکٹو حکمنامے پر کام چلانا ہے تو عدالت کی کیا ضرورت ہے۔


موصوف سابق وزیر اعلیٰ نے پاکستان کی طرف سے جموں و کشمیر میں پیسہ آنے کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ یہ حکومت ہند کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس پیسے کو جموں وکشمیر میں داخل ہونے سے روکے۔ بے روز گاری کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'یہ بات صحیح نہیں ہے کہ بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان بندوق اٹھا رہے ہیں بلکہ کئی ایسے بھی نوجوان ہیں جنہوں نے نوکریاں چھوڑ کر بندوق اٹھائی'۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم بھارت کو اپنا مان رہے ہیں لیکن ہمیں دھکیلا جا رہا ہے اور ہمارے ساتھ کئے گئے وعدوں کو مختلف بہانے بنا کر پورا نہیں کیا جا رہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتیں کچھ مسئلوں پر ایک ہی صفحے پر جمع ہوئی تھیں لیکن سجاد لون کو الگ کیا گیا کیونکہ وہ اس کو ہمارے ساتھ نہیں دیکھنا چاہتے تھے'۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔