’ہمیں ابو پر فخر ہے اور ان کی ایمانداری پر ناز، ہم غریب ہیں لیکن بے ایمان نہیں‘، آس محمد کے عمل کی ہو رہی تعریف
مودی نگر کے آس محمد وہی رکشہ ڈرائیور ہیں جنھوں نے پیر کے روز ایمانداری کی مثال قائم کرتے ہوئے سڑک کنارے ملے نوٹوں سے بھرے بیگ کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔
مودی نگر کے 52 سالہ آس محمد کی ان دنوں خوب تعریفیں ہو رہی ہیں۔ ان کے گھر مبارکباد پیش کرنے والوں کا طویل سلسلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان کے رشتہ دار اور پڑوسی یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہیں، لیکن آس محمد آج بھی روزانہ کی طرح بھاڑا لے کر اپنے کام پر نکل گئے ہیں۔ وہ ای رکشہ چلاتے ہیں۔ مقامی سطح پر ہیرو بن چکے آس محمد دن بھر اسی ای رکشہ کو چلا کر تقریباً 500 روپے کما لیتے ہیں۔ چار بچوں کے والد آس محمد نے محنت مزدوری کر اس ایماندارانہ کمائی سے اپنی ایک بیٹی کو گریجویٹ تک کی پڑھائی کرائی ہے اور بیٹے کو وکالت بھی کرائی۔ بنیادی طور پر میرٹھ کے چھجی پور گاؤں کے رہنے والے آس محمد پر آج مراد نگر کے لوگ فخر محسوس کر رہے ہیں۔
مودی نگر کے آس محمد وہی رکشہ ڈرائیور ہیں جنھوں نے پیر کے روز ایمانداری کی مثال قائم کرتے ہوئے سڑک کنارے ملے نوٹوں سے بھرے بیگ کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ پولیس کو جانچ میں اس بیگ میں 25 لاکھ روپے ملے۔ اس کے بعد آس محمد کو ایس پی دیہی روی کمار نے اعزاز بخشا۔ سی ای مودی نگر رتیش ترپاٹھی کے مطابق ایک شخص نے ان روپیوں کے اپنے ہونے کا دعویٰ کیا اور اس کی جانچ کی جا رہی ہے۔ انھوں نے آس محمد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تمام شہریوں کو ان کی ایمانداری سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
آس محمد کے بیٹے محمد عامر غازی آباد میں بطور ٹرینی وکالت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمیں ابو پر فخر ہے اور ان کی ایمانداری پر ناز ہے۔ ابو نے ہمیشہ سکھایا ہے کہ غریب ہونا برا نہیں ہے، بے ایمان ہونا برا ہے۔ آج انھوں نے زندگی بھر ہمیں جو سبق سکھایا، اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا ہے۔‘‘ عامر مزید بتاتے ہیں کہ جب ابو کو یہ بیگ ملا تو انھوں نے مجھے فون کر کے تھانہ ساتھ جانے کے لیے کہا۔ لیکن میں غازی آباد میں تھا تو میں نے اپنے ایک دوست سرفراز کو ان کے ساتھ بھیجا۔ ہمارے گھر میں خوشی کا ماحول ہے۔ میری امی اس دن میری خالہ کے یہاں گئی ہوئی تھیں۔ وہ واپس آئی تو انھوں نے ابو کے فیصلے کی بہت تعریف کی۔ ہمارے ابو نے بہترین فیصلہ لیا۔ ہمیں اب لوگوں کی خوب تعریفیں مل رہی ہیں۔
عامر مودی نگر میں روپیوں کا بیگ لوٹانے والے آس محمد کے تین بیٹوں میں سے منجھلے ہیں۔ دیگر دو بھائی محنت مزدوری کرتے ہیں اور عامر کی بہن رانی نے گریجویٹ تک پڑھائی کی ہے اور اس کی شادی بھی ہو چکی ہے۔ عامر کہتے ہیں کہ ابو تو سبھی کو پڑھانا چاہتے تھے لیکن معاشی جدوجہد کی وجہ سے میں اور میری بہن ہی زیادہ پڑھ پائے۔ میری امی منیفہ بہت مذہبی خیالات کی ہیں۔ انھیں اللہ پر بہت بھروسہ ہے اور انھوں نے ہمیشہ ہمیں صبر کی تلقین کی ہے۔ اللہ پر یقین ہی ہمیں یہاں لے کر آیا ہے۔ ابو نے آج جو کچھ کیا اس نے پورے کنبہ کو فخر کا موقع میسر کرایا ہے۔
آس محمد کے بارے میں یہ جاننا دلچسپ ہے کہ وہ پانچویں درجہ تک تعلیم حاصل کیے ہوئے ہیں اور 1990 میں میرٹھ میں ہوم گارڈ رہ چکے ہیں۔ آس محمد بتاتے ہیں کہ پیر کے روز شملہ روڈ پر وہ ٹین کی چادر کا بھاڑا اپنے ای رکشہ میں لے کر جا رہے تھے تو انھیں رجواہے کے نزدیک سڑک پر ایک بیگ پڑا ہوا دکھائی دیا۔ آس پاس دیکھا تو کوئی نظر نہیں آیا۔ میں نے بیگ اٹھا لیا تو دیکھا کہ اس میں نوٹوں کی گڈیاں تھیں۔ میں نے فوراً تھانہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے اپنے بیٹے کو فون کیا اور ساتھ چلنے کی بات کہی۔ بیٹا وکیل ہے اور اس نے اپنے ایک دوست کو میرے پاس بھیج دیا اور پھر میں تھانے پہنچ گیا۔ وہاں میری بہت تعریف کی گئی اور احترام بھی دیا گیا۔ میرا ماننا ہے کہ کسی کو بھی نصیب سے زیادہ نہیں مل سکتا، چاہے وہ ایمانداری سے کمائیں یا بے ایمانی سے۔ میں نے ایمانداری کا راستہ منتخب کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے عمل سے میرا کنبہ بھی خوش ہے۔ میں نے محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کو پڑھایا ہے اور میری کوشش ہے کہ انھیں حلال رزق کھلاؤں۔
مودی نگر کے سی او رتیش ترپاٹھی رکشہ ڈرائیور آس محمد کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سماج کو ایسے بیدار اور ایماندار شہری ہمیشہ مضبوط کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ملکی باشندوں کے لیے ایک نظیر ہے۔ ہم سبھی کو اس سے ترغیب حاصل کرنی چاہیے۔ مودی نگر کے باشندہ نظام چودھری کہتے ہیں کہ آس محمد نے مودی نگر کے باشندوں کو فخر سے بھر دیا ہے۔ نوٹوں سے بھرا ہوا بیگ کسی کی بھی نیت کو خراب کر سکتا تھا، لیکن آس محمد کی ایمانداری جیت گئی۔ یہ ایک غریب رکشہ ڈرائیور کے مضبوط عزائم کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔