’عوام کی آزادی کو سلب نہیں کیا جانا چاہیے‘، یومِ جمہوریہ پر صحافی صدیق کپن کی کمسن بیٹی کا خطاب

جیل میں بند صحافی صدیق کپن کی 9 سالہ بیٹی نے یوم آزادی کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر ہندوستانی کو اظہار رائے کی آزادی ہے، یہ حق ہے کہ وہ انتخاب کرے کہ کس مذہب کی پیروی کرنی ہے اور کیا کھانا ہے۔

تصویر ویڈیو گریب
تصویر ویڈیو گریب
user

قومی آواز بیورو

قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے صحافی صدیق کپن کی 9 سالہ بیٹی مہناز کپن نے آج یومِ آزادی کے موقع پر ایک مختصر خطاب پیش کیا۔ یہ خطاب اس نے اپنے اسکول کی یومِ آزادی تقریب کے دوران پیش کیا جو کہ انتہائی معنی خیز ہے۔ سیاسی طور پر غیر معمولی بیداری رکھنے والی 9 سالہ اس بچی نے کہا کہ ’’ہر ہندوستانی کو اظہارِ رائے کی آزادی ہے، وہ کسی بھی عقیدہ یا مذہب کو منتخب کرنے اور اپنی پسند کی چیز کھانے کے لیے آزاد ہے۔‘‘

مہناز ملپورم ضلع کے نوٹاپورم میں گورنمنٹ لووَر پرائمری اسکول میں درجہ چہارم کی طالبہ ہے اور اسکول کی لیڈر بھی ہے۔ اس نے اپنے اسکول میں 75ویں یومِ آزادی کی تقریبات کے موقع پر ایک چھوٹے سے اسکولی اجتماع سے خطاب کر کے سبھی کو حیران کر دیا۔ اس نے کہا کہ ’’میں صحافی صدیق کپن کی بیٹی ہوں، ایک شہری جس کی آزادی کو سلب کر لیا گیا ہے اور وہ ایک تاریک جیل میں بند ہے۔‘‘


قابل ذکر ہے کہ صدیق کپن 5 اکتوبر 2020 سے جیل میں ہیں۔ یوپی پولیس نے متھرا ٹول پلازہ پر کیب ڈرائیور اور تین دیگر افراد کے ساتھ انھیں اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اتر پردیش کے ہاتھرس جا رہے تھے۔ وہ ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کی اجتماعی عصمت دری اور قتل واقعہ کی رپورٹنگ کے لیے جا رہے تھے تاکہ وہاں کے حالات سے لوگوں کو واقف کرایا جا سکے۔

بہرحال، کمسن مہناز کپن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’جس طرح ہمارا ملک آزادی کے 76ویں سال میں داخل ہو رہا ہے، مجھے غیر بے انتہا فخر اور عقیدت کے ساتھ ’بھارت ماتا کی جئے‘ کہنے دیں۔ آج ہمارے پاس جو آزادی ہے وہ گاندھی، نہرو، بھگت سنگھ اور بے شمار دیگر لیڈروں کی جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہے ’’ہندوستانی ہونے کے ناطے ہمیں ہر اس شخص کا مقابلہ کرنے کا حق ہے جو ہمیں ملک چھوڑنے کے لیے کہتا ہے۔ ہمیں 15 اگست کو پیدا ہونے والی اپنی آزاد قوم کے وقار سے کبھی دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم آج بھی ملک میں کئی مقامات پر بدامنی ہے۔ اسے مذہب، ذات پات اور سیاست کی بنیاد پر پیدا ہونے والے تشدد میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسے ہم سب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے۔ ہمیں مل جل کر رہنے کے قابل ہونا ہے۔‘‘


مہناز کے مختصر خطاب سے ظاہر ہے کہ ہمیں ہندوستان کو ابھی مزید بلندیوں تک پہنچانا ہے اور بطور شہری ہمیں دشمنی اور تنازعات کے بغیر ایک بہتر ملک کا خواب دیکھنا چاہیے۔ اپنے خطاب کے آخر میں مہناز کہتی ہے ’’آزادی کے لیے لڑنے والے تمام بہادر روحوں کو یاد کرتے ہوئے میں یہ کہہ کر اپنی بات ختم کرتی ہوں کہ عام شہریوں کی آزادی کو سلب نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔