یوپی کا جبری تبدیلی مذہب قانون، ایک مہینے میں 54 ’مسلمان‘ گرفتار
مسلمانوں کے خلاف ’لو جہاد‘ کے نام پر پھیلائی گئی منافرت اور اس کی بنیاد پر یوپی حکومت کی طرف سے کی جانے والی قانون سازی پر ماہرین نے جو خدشات ظاہر کیے تھے وہ اب سچ ثابت ہو رہے ہیں۔
لکھنؤ: اتر پردیش غیر قانونی تبدیلی مذہب مخالف قانون 2020 کے تحت صوبہ بھر میں ایک مہینے کے دوران اب تک 54 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس کی رپورٹ میں سرکاری ذرائع کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ قانون نافذ ہونے کے بعد سے اب تک اتر پردیش پولیس نے 16 معاملوں میں ایف آئی آر درج کی ہے، 86 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے اور ان میں سے 54 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جبکہ 31 ملزمان کو گرفتار کیا جانا ابھی باقی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف ’لو جہاد‘ کے نام پر پھیلائی گئی منافرت اور اس کی بنیاد پر یوپی حکومت کی طرف سے کی جانے والی قانون سازی پر ماہرین نے جو خدشات ظاہر کیے تھے وہ اب سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ چونکہ اتر پردیش میں جن 54 افراد کو پولیس نے جبری تبدیلی مذہب قانون کے تحت گرفتار کیا ہے وہ سبھی مسلمان ہیں۔ جبکہ ہندو لڑکے کی طرف سے مسلم لڑکی سے شادی کیے جانے کے کئی معاملوں میں پولیس جوڑے کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔
نئے قانون کے تحت سب سے زیادہ ایٹہ میں 26 افراد کے خلاف معاملہ درج کیا گیا ہے، ان میں سے 14 کے خلاف ایک ہی معاملہ میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ لڑکیوں کے اہل خانہ کی شکایت پر زیادہ تر ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔
افسر نے کہا، ’’وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ہدایت پر پولیس کو جبری تبدیلی مذہب کے خلاف کارروائی کے واضح احکامات جاری کیے گئے تھے۔ کئی معاملوں میں لوگ نئے قانون سے لاعلم تھے اور پولیس کی طرف سے بین مذاہب شادی کے خواہاں لڑکی اور لڑکے کے والدین کو سمجھا دیا گیا۔‘‘
گزشتہ ایک مہینے کے دوران بجنور اور شاہجہانپور میں دو دو اور فیروز آباد، ایٹہ، بریلی، مراد آباد، قنوج، ہردوئی، سیتاپور، سہارنپور، مظفرنگر، اعظم گڑھ، مئو اور گوتم بدھ نگر میں ایک ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
ایٹہ ضلع میں ایک مقامی تاجر نے محمد جاوید کے خلاف اغوا اور غیر قانونی طور پر ہندو لڑکی کو مبینہ طور پر مسلمان بنانے کے خلاف جلیسر پولیس تھانہ میں معاملہ درج کرایا تھا۔ پولیس نے جاوید کے کنبہ کے 14 افراد کو گرفتار کیا، جبکہ کلیدی ملزم سمیت 12 دیگر ملزمان تاحال پولیس کی گرفت سے باہر ہیں۔
مئو میں نئے قانون کے تحت 16 افراد کے خلاف چریّا کوٹ پولیس اسٹیشن میں 3 دسمبر کو ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ شباب خان عرف راہل اور اس کے 13 واقف کاروں پر اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شباب پہلے سے ہی شادی شدہ ہے اور اس کے معاونین نے تبدیلی مذہب کرانے کے لئے 30 نومبر کو 27 سالہ ایک خاتون کا مبینہ طور اغوا کر لیا۔ بعد میں 8 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ آٹھ دیگر فرار ہیں۔ ایٹہ میں کم از کم 12 افراد، مئو میں 9، شاہجہانپور میں 5، سہارنپور میں 4 اور سیتا پور اور مظفرنگر میں ایک ایک شخص ابھی بھی فرار ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یوپی میں تمام ایف آئی آر صرف مسلمان لڑکے اور ہندو لڑکی ہونے کی صورت میں ہی درج کی جا رہی ہیں۔ جبکہ ہندو لڑکا اور مسلم لڑکی اگر شادی کرنا چاہتے ہیں تو ان کو پولیس تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ اس سے اس قانون کا مقصد اور حکومت کے سیاسی اہداف صاف ظاہر ہو رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 30 Dec 2020, 6:10 PM