سپریم کورٹ ازدواجی عصمت دری کو جرم ماننے پر سماعت کے لیے راضی، مرکز سے 15 فروری تک مانگا جواب

سپریم کورٹ نے ازدواجی عصمت دری کو جرم قرار دینے کا مطالبہ کرنے والی کئی عرضیوں پر سماعت کے لیے تیار ہے اور مرکزی حکومت سے 15 فروری تک جواب طلب کیا ہے۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

ازدواجی عصمت دری (شریک حیات کے ذریعہ جبراً جسمانی رشتہ بنانا) کو جرم قرار دینے کا مطالبہ کرنے والی کئی عرضیوں کو سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔ اس معاملے میں عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت سے 15 فروری تک جواب بھی طلب کیا ہے۔ عدالت مارچ میں اس معاملے کی سماعت کرنے پر متفق ہوئی ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا اور جے بی پاردی والا کی بنچ نے مرکز کی نمائندگی کر رہے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے 15 فروری 2023 کو یا اس سے پہلے معاملے میں جوابی حلف نامہ داخل کرنے کو کہا ہے۔ تشار مہتا نے کہا کہ اس معاملے میں قانونی معاملات کے علاوہ سماجی معاملات بھی ہوں گے۔

عدالت عظمیٰ نے الگ الگ ہائی کورٹس کو فیصلہ دینے کی جگہ معاملے کو خود اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس معاملے پر مارچ میں سماعت ہوگی۔ بنچ نے سبھی فریقین کو 3 مارچ تک اپنی دلیلیں داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ مہتا نے بنچ کو مطلع کیا کہ حکومت نے اس معاملے پر ریاستی حکومتوں کے نظریات مانگے ہیں۔


گزشتہ سال مئی میں ازدواجی عصمت دری کے جرم ہونے پر مختلف نظریہ ظاہر کرنے والے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی گئی تھی۔ ساتھ ہی گزشتہ سال جولائی میں عدالت عظمیٰ نے کرناتک ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی تھی۔ مئی میں عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف شوہر کی عرضی پر نوٹس جاری کیا تھا۔ حالانکہ اس نے تب ہائی کورٹ کے فیصلے اور مقدمے کی کارروائی پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا۔ ازدواجی عصمت دری کے جرم قرار دینے کے مطالبہ کو لے کر عدالت عظمیٰ میں عرضیاں بھی داخل کی گئی ہیں۔

معاملے میں گزشتہ 11 مئی کو جسٹس راجیو شکدھر اور جسٹس سی ہری شنکر کی ہائی کورٹ کی بنچ نے الگ الگ رائے ظاہر کی۔ جسٹس راجیو شکدھر نے یہ کہتے ہوئے متنازعہ قانون کو رد کرنے کی حمایت کی کہ شوہر کو ازدواجی عصمت دری کے جرم سے چھوٹ دینا غیر آئینی ہے، جس سے جسٹس ہر شنکر متفق نہیں تھے۔ جسٹس شکدھر نے کہا کہ رضامندی کے بغیر بیوی کے ساتھ ہم بستری کرنا دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے رد کر دیا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔