یوپی انتخاب: پوروانچل میں دونوں اتحادیوں کے قدآور لیڈران کا ہوگا امتحان
سیاسی تجزیہ نگار پرسون پانڈے کہتے ہیں کہ پوروانچل کی طرف بڑھ رہے انتخاب میں سبھی پارٹیوں کے سامنے چیلنج ہے، یہاں پر ذات پات کی جکڑن مضبوط ہے، ایسے میں سبھی پارٹیوں نے اپنے اتحاد کی طاقت جھونک رکھی ہے۔
اتر پردیش کا اسمبلی انتخاب اب دھیرے دھیرے پوروانچل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پوروانچل میں ہی بی جے پی اور سماجوادی پارٹی دونوں اتحاد کے بڑے لیڈران کا سخت امتحان ہے۔ سماجوادی پارٹی اور بی جے پی سے جڑے کئی ایسے لیڈر ہیں جو اپنی ذاتوں کے نام پر اقتدار حاصل کرنے کا دم بھر رہے ہیں۔ اس میں سے کئی انتخابی میدان میں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں کئی لیڈر ایسے ہیں جو اس بار بی جے پی سے الگ ہو کر سماجوادی پارٹی سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
اس بار پوروانچل کی سیاسی جنگ میں سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کے سربراہ اوم پرکاش راجبھر، ڈاکٹر سنجے نشاد، انوپریا پٹیل، سوامی پرساد موریہ اور دارا سنگھ کا بڑا امتحان ہونا ہے۔ سب سے پہلے پورب میں انتخاب کا مرکزی نکتہ بنے ظہور آباد سیٹ سے کھڑے سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی سربراہ اوم پرکاش راجبھر کی اگر بات کریں تو انھوں نے 2017 میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر کے چار سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ وزیر بھی بنے لیکن کچھ دنوں بعد وہ بی جے پی سے بغاوت کر کے الگ ہو گئے اور بی جے پی کے خلاف محاذ کھول دیا۔
موجودہ انتخاب میں وہ سماجوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ وہ اپنے کو پچھڑی ذات کا بڑا لیڈر بتاتے ہیں۔ ان کی پوری سیاست کمہار، بند، ملاح، پرجاپتی، کشواہا، کوری پر مرکوز ہے۔ وہ اس بار خود ظہور آباد سے انتخابی میدان میں ہیں۔ ان کے خلاف بی جے پی کے کالی چرن راجبھر اور سماجوادی پارٹی میں وزیر رہیں شاداب فاطمہ بی ایس پی سے سہ رخی مقابلے میں ہیں۔ جب کہ ان کے بیٹے وزیر اعظم کے پارلیمانی حلقہ وارانسی کے شیوپور سے یکساں ذات کے لیڈر انل راجبھر کے خلاف انتخابی میدان میں ہیں۔ ایک ذات کے لیڈروں کے لیے یہ بڑا امتحان ہے۔ سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی اس بار 18 سیٹوں پر انتخاب لڑ رہی ہے۔
کرمی ووٹوں کے بکھراؤ کو روکنے کے لیے بی جے پی نے انوپریا پٹیل سے اپنا اتحاد کیا ہے۔ 2017 کے انتخاب میں وہ 11 سیٹوں پر انتخاب لڑی تھیں جس میں انھیں 9 پر کامیابی ملی تھی۔ اس بار بی جے پی کے سامنے چیلنج بنے ذات پر مبنی فارمولے سے نمٹنے کے لیے اس نے اپنا دَل کو بھرپور سیٹیں دی ہیں۔ بی جے پی نے اس بار انوپریا پٹیل کو 17 سیٹیں دی ہیں۔ ان کے سامنے ان سیٹوں کو جیتنے اور اپنے کو کرمی لیڈر ثابت کرنے کا بڑا چیلنج ہے۔
خود کو نشادوں کا بڑا لیڈر بتانے والے ڈاکٹر سنجے نشاد کی بات کریں تو بی ج پی نے انھیں اتحاد میں 16 سیٹیں دی ہیں۔ ان میں سے بیشتر سیٹیں پوروانچل کی ہیں۔ 2018 کے ضمنی انتخاب میں جب انھوں نے سماجوادی پارٹی کی حمایت سے بی جے پی کو اس کی مضبوط گورکھپور سیٹ پر شکست دی تھی تو برسراقتدار خیمہ نے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا تھا۔ اس کے بعد 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں سنجے نشاد کے بیٹے سَنت کبیر نگر سے بی جے پی کے ٹکٹ پر لڑے اور اس وقت رکن پارلیمنٹ ہیں۔ اس بار انھیں بھی اپنے کو بڑا ثابت کرنے کے لیے سخت امتحان سے گزرنا ہے۔
گزشتہ انتخاب میں بی جے پی کا ساتھ پا کر وزیر بنے سوامی پرساد اور دارا سنگھ کا بھی امتحان ہونا ہے۔ دونوں لیڈر اس بار سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر میدان میں ہیں۔ سماجوادی پارٹی کو طاقت دینے کے لیے انوپریا کی ماں کرشنا پٹیل بھی حمایت میں کھڑی ہو گئی ہیں۔ اپنا دَل کمیراوادی نے سماجوادی پارٹی سے اتحاد کیا ہے۔ ان کی بیٹی پلوی پٹیل نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد پرساد موریہ کے خلاف انتخابی میدان میں ہیں۔
ایسے میں خصوصاً چھٹے اور ساتویں مرحلے میں ہونے والے انتخاب میں ہی واضح ہو سکے گا کہ واقعی ترقی کے آگے بڑھ کر ذات کی سیاست کرنے والے سیاست کے یہ علمبردار کتنے اثردار ثابت ہوتے ہیں۔ سینئر سیاسی تجزیہ نگار پرسون پانڈے کہتے ہیں کہ پوروانچل کی طرف بڑھ رہے انتخاب میں سبھی پارٹیوں کے سامنے چیلنج ہے۔ یہاں پر ذات کی جکڑن مضبوط ہوتی ہے۔ ایسے میں سبھی پارٹیوں نے اپنے اتحاد کے دَم پر طاقت جھونک رکھی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔