یوپی اسمبلی انتخابات: مبینہ بے ضابطگیوں کا پردہ فاش کرنے والے صحافی گورو بنسل کی ضمانت پر رہائی
یوپی اسمبلی انتخابات کے دوران مبینہ بے ضابطگیوں کا پردہ فاش کرنے والے 39 سالہ صحافی گورو بنسل کی درخواست ضمانت منظور ہونے کے بعد انہیں پیر کی شام دیر گئے جیل سے رہا کر دیا گیا
لکھنؤ: یوپی اسمبلی انتخابات کے دوران مبینہ بے ضابطگیوں کا پردہ فاش کرنے والے 39 سالہ صحافی گورو بنسل کی درخواست ضمانت منظور ہونے کے بعد انہیں پیر کی شام دیر گئے جیل سے رہا کر دیا گیا۔ آگرہ سے تعلق رکھنے والے گورو کو حال ہی میں 15 مارچ کو اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے دوران مبینہ بے ضابطگیوں کی فرضی خبریں رپورٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے صحافی کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد ان کی ضمانت منظور کر لی۔ آگرہ میں صحافیوں نے بنسل کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عدالتی حکم کا خیر مقدم کیا۔
گورو بنسل نے 8 مارچ کو آگرہ میں واقع ایک ووٹ شماری کے مرکز پر پہنچ کر الزام عائد کیا تھا کہ یوپی اسمبلی انتخابات کی ووٹنگ کے دوران جو ای وی ایم استعمال کی گئی تھیں، انہیں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ بنسل کے وکیل نے الزام عائد کیا کہ حراست کے دران انہیں پولیس کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پولیس والوں پر بنسل کے خلاف ’تھرڈ ڈگری ٹارچر‘ کا استعمال کرنے اور ان کی تذلیل کا بھی الزام ہے۔
صحافی کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ جس کے بعد انہیں عدالت میں پیش کیا گیا اور عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا۔ بنسل کے وکیل نے اس بنیاد پر ضمانت کی درخواست کی کہ ان کا مؤکل بے قصور ہے لیکن استغاثہ نے ضمانت کی درخواست کی مخالفت کی۔
قبل ازیں، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے پیر کے روز صحافی گورو بنسل کی گرفتاری پر شدید احتجاج کیا تھا۔ گلڈ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ گورو بنسل کی گرفتاری صرف اس لئے کی گئی ہے کیونکہ انہوں نے اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے دوران کئی بے ضابطگیوں کا پردہ فاش کیا تھا۔ بیان میں کہا گیا کہ ان کے خلاف غیر ضروری دفعات عائد کی گئی ہیں اور دوران حراست سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے گورو بنسل کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتظامیہ ان کے ساتھ منصفانہ سلوک کرے۔ یہ اظہار رائے کا معاملہ ہے اور اس طرح کی ہراسانی کے سبب صحافیوں پر غیر ضروری دباؤ پڑتا ہے، جو جمہوریت کے لئے خطرناک ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔