یوپی اسمبلی انتخابات: بی جے پی کی ’مظفرنگر فسادات‘ کے گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش، ’داؤ الٹا بھی پڑ سکتا ہے!‘
مکیش کاکران نے کہا، فساد کے کتنے ہی گڑے مردے اکھاڑ لئے جائیں مگر سماج جانتا ہے کہ فسادات پوری طرح سے سیاست پر مبنی تھے اور دونوں جانب کے لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے، بی جے پی کا داؤ الٹا بھی پڑ سکتا ہے
مغربی اتر پردیش میں جاٹوں پر سیاست تیز ہو گئی ہے۔ جاٹوں کی بھاری ناراضگی کے پیش نظر بی جے پی انہیں منانے کی کوشش میں مصروف ہے اور یہ کوشش اس حد تک جا پہنچی ہے کہ خود مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے مغربی اتر پردیش کے 250 سے زیادہ جاٹ طبقہ کے لوگوں کو بلا کر ان سے بات چیت کی ہے۔ اس کے علاوہ امت شاہ نے کھلے عام آر ایل ڈی کے قومی صدر جینت چودھری کو دعوت دے کر جاٹوں کو مائل کرنے کی بھی کوشش کی۔ بی جے پی کے تمام بڑے جاٹ لیڈران کو مغربی یوپی میں فعال کر دیا گیا ہے۔ آر ایل ڈی کے سپریمو جینت چودھری نے بھی ہلچل کے پیش نظر مظفرنگر میں ڈیرا ڈال دیا ہے۔ جینت چودھری نے تین اسمبلی حلقوں میں منعقدہ جلسوں سے خطاب کیا اور وہ اب یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماجوای پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو کے ساتھ مظفرنگر میں ہی ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرنے جا رہے ہیں۔
یوپی اسمبلی انتخابات کے تحت پہلے مرحلہ میں 10 فروری کو 11 اضلاع کی 58 اسمبلی سیٹوں پر پولنگ ہونی ہے اور ان اضلاع میں میرٹھ، بلند شہر، باغپت، شاملی، مظفرنگر، غازی آباد، گوتم بدھ نگر شامل ہیں۔ ان تمام سیٹوں پر جاٹوں کی تعداد کافی ہے۔ جاٹ کسان تحریک کے بعد سے بی جے پی سے ناراض چل رہے ہیں۔ بی جے پی یہ بات سمجھتی ہے کہ جاٹوں کی ناراضگی مغربی اتر پردیش میں ان کی شروعات خراب کر سکتی ہے۔ جاٹوں کی ناراضگی بی جے پی کے لئے اور زیادہ پریشانی کا باعث اس لئے بن گئی ہے کیونکہ ان کا جھکاؤ راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) کی جانب ہو گیا ہے اور آر ایل ڈی اتر پردیش میں بی جے پی کے ساتھ براہ راست مقابلہ میں مانی جا رہی سماجوادی پارٹی کے ساتھ مل کر انتخاب لڑ رہی ہے۔ یہ اتحاد مغربی یوپی کی 50 سے زیادہ سیٹیں بی جے پی سے چھین لینے کی حیثیت رکھتا ہے۔
جاٹ مغربی یوپی میں تقریباً 45 سیٹوں پر اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔ یہ آبادی اندازے کے طور پر 17 فیصد کہی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ مسلمان یہاں 29 فیصد ہیں اور فسادات کے غم کو بھلا کر سماجوادی پارٹی اور آر ایل ڈی کے اتحاد سے دنوں طبقوں کی تعداد 48 فیصد ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ امیدواروں کی ذاتیاتی ریاضی نے تو پورا کھیل ہی پلٹ دیا ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ پرویش ورما کے گھر پر جاٹ لیڈران کے ساتھ بات چیت میں وزیر داخلہ امت شاہ نے جاٹوں کو اپنے پالے میں لانے کے لئے اور اس اتحاد کو توڑنے کے لئے اپنے ترکش کے کئی تیر چھوڑے۔ اس اجلاس سے لوٹ کر آئے ایک شخص نے نام شائع نہیں کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہاں یہ بھی کہا گیا کہ اگر جاٹوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا تو سماجوادی پارٹی کی حکومت بن جائے گی اور اعظم خان جیل سے باہر آ جائیں گے۔ بی جے پی کے اس بیان کے پیچھے کی سچائی اعدادوشمار میں پوشیدہ ہے۔ سی ایس ڈی ایس کے سروے کے مطابق 2014 میں 77 فیصد جاٹوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا، 2017 کے اسمبلی انتخابات میں یہ 39 فیصد رہ گیا تو 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں یہ 91 فیصد تک جا پہنچا۔ اس میں حیران کن بات یہ ہے کہ آر ایل ڈی کے صدر آنجہانی چودھری اجیت سنگھ اور ان کے بیٹے جینت چودھری دونوں لوک سبھا انتخاب ہار گئے تھے۔ ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ صرف 4 فیصد جاٹوں نے 2012 کے یوپی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ 2013 کے فسادات کے بعد یہ صورت حال تبدیل ہو گئی۔
جاٹوں کو مائل کرنے کے اس عمل میں آر ایل ڈی کے صدر جینت چودھری نے بھی مظفرنگر میں ڈیرا ڈال دیا ہے۔ انہوں نے ایک دن میں کھتولی، بوڑھانہ اور چرتھاول اسمبلی حلقوں میں انتخابی تقاریب میں شرکت کی اور مظفرنگر کے اپنے قیام کے دوران وہ کارکنان سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اس دوران کھتولی میں جینت چودھری نے کہا ’’بی جے پی کو انہیں دعوت دینے کے بجائے ان 700 کسانوں کے اہل خانہ کو مدعو کرنا چاہئے جن کی کسان تحریک کے دوران موت ہوئی ہے۔ بی جے پی کسان مخالف جماعت ہے۔ کسان تحریک کے دوران انہیں کسانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوئی۔ گنا بقایہ اب نہیں ہوا ہے۔ آوارہ جانوروں سے کسانوں کی فصل برباد ہو رہی ہے۔ بجلی کئی گنا مہنگی ہو گئی ہے۔ کسان خاندانوں کے نوجوان بے روزگار گھوم رہے ہیں۔ بی جے پی تقسیم کی سیاست کر کے کسانوں کو ذات اور مذہب میں باٹنا چاہتی ہے۔‘‘ جینت چودھری نے مزید کہا ’’یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کسانوں پر لاٹھیوں اور پانی کی بوچھاڑ کی، انہیں غدار کہا، گالیاں دیں۔ انتخابات میں ہار نزدیک دیکھ کر گھڑیالی آنسو بہا رہے ہیں۔ کسان سب سمجھتا ہے۔ وہ ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آنے والا نہیں ہے۔‘‘
سطح پر بھی مغربی اتر پردیش میں جاٹوں اور مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنے کے لئے ہتھکنڈہ اپنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر مظفرنگر فساد کے حوالہ سے من گھڑت اور فرضی مواد پیش کیا جا رہا ہے۔ مظفرنگر کے نوجوان انعام علی کے مطابق انہیں واٹس ایپ گروپ میں مظفرنگر فسادات سے وابستہ تین منٹ کی ایک ویڈیو کلپ موصول ہوئی تھی جو پوری طرح نفرت سے بھری ہوئی ہے اور جاٹوں کو اکسا سکتی تھی۔ اس کے ذریعے 2013 میں فسادات میں مسلمانوں کو قصوروار قرار دیتے ہوئے جاٹوں کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی گئی تھی۔ انعام نے کہا ’’میرے جاٹ دوستوں نے مجھ سے اس بارے میں بات کرنے کوشش کی لیکن میں نے بات بدل دی۔‘‘ اسی طرح کی ویڈیو کلپ وائرل ہونے کے بعد 2013 میں فساد بھڑک گیا تھا۔ اب تو ڈیجیٹل تکنیک مزید جدید ہونے کے سبب حالات اور زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔
راجپور گاؤں کے استاد اور مصنف مکیش کاکران اس معاملہ پر کہتے ہیں ’’ان سب کوششوں کا بہت زیادہ اثر نہیں پڑنے والا۔ فساد کے کتنے ہی گڑے مردے اکھاڑ لئے جائیں مگر سماج جانتا ہے کہ فسادات پوری طرح سے سیاست پر مبنی تھے اور دونوں جانب کے لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے۔ اس تکلیف کو سبھی نے محسوس کیا تھا۔ آج جو سیاسی جماعت فسادات کو یاد دلا کر سماج کے پھر سے بٹوارے کو اپنا فائدہ مان رہے ہیں ان کا یہ داؤ الٹا بھی پڑ سکتا ہے۔ سماج چڑھ کر ان کے خلاف بھی ووٹ کر سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی سماج اب جھگڑا نہیں چاہتا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔