خاتون ڈاکٹر قتل کیس: ’یہ صرف قتل کا معاملہ نہیں، ہمیں ڈاکٹروں کے تحفظ کی فکر ہے‘، سپریم کورٹ نے ٹاسک فورس تشکیل دی

سپریم کورٹ نے متاثرہ کی شناخت ظاہر ہونے پر فکر مندی ظاہر کی ہے، ساتھ ہی اس کیس میں پولیس جانچ سے لے کر آر جی کر میڈیکل کالج کے پرنسپل سندیپ گھوش کے کردار پر سوال اٹھائے ہیں۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

کولکاتا واقع آر جی کر میڈیکل کالج و اسپتال میں زیر تربیت خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری و قتل سے متعلق کیس پر سپریم کورٹ میں آج سماعت ہوئی۔ عدالت عظمیٰ نے جونیئر ڈاکٹر کی عصمت دری کے بعد قتل اور اسپتال میں ہوئی توڑ پھوڑ کے معاملے میں از خود نوٹس لیتے ہوئے یہ سماعت کی ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی بنچ میں جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا شامل رہے۔ بنچ نے اس معاملے پر سماعت کے دوران متاثرہ کی شناخت ظاہر ہونے پر فکر کا اظہار کیا اور پولیس جانچ سے لے کر آر جی کر میڈیکل کالج کے پرنسپل سندیپ گھوش کے کردار تک پر سوال اٹھائے۔

سپریم کورٹ نے اس معاملے میں 8 رکنی ٹاسک فورس کی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے جس میں ایمس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایم سرینواسن کے علاوہ کئی دیگر ڈاکٹرس کو شامل کیا گیا ہے۔ آج ہوئی سماعت کے دوران چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے ایک بات واضح لفظوں میں کہا کہ یہ صرف ایک قتل کا معاملہ نہیں ہے، ہمیں ڈاکٹروں کی حفاظت کی فکر ہے۔ بنچ نے کہا کہ خواتین تحفظ سے محروم ہو رہی ہیں۔ آخر ایسے حالات میں ڈاکٹر کس طرح کام کریں گے۔


عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کئی مقامات پر ’ریسٹ روم‘ تک نہیں ہوتے۔ آج خواتین تیزی سے وَرک پلیس (ملازمت کے لیے) میں شامل ہو رہی ہیں۔ ان کی سیکورٹی یقینی کرنے اور بدلاؤ لانے کے لیے ہم مزید ایک عصمت دری کا انتظار نہیں کر سکتے۔ طبی پیشہ میں تشدد کا اندیشہ بڑھ گیا ہے اور مردوں کی بالادستی والی سوچ کے سبب خاتون ڈاکٹرس کو زیادہ ہدف بنایا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ’’اگر خواتین کام پر نہیں جا پا رہی ہیں اور کام کرنے کا ماحول محفوظ نہیں ہے تو ہم انھیں مساوات سے محروم کر رہے ہیں۔ ہمیں کام کرنے کے محفوظ حالات کو یقینی بنانے کے لیے قومی پروٹوکول بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘

سپریم کورٹ نے آج سماعت کے دوران احتجاجی مظاہرہ کرنے والے ڈاکٹروں سے کام پر لوٹنے کی اپیل بھی کی۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ہم سبھی طبی اہلکاروں کی حفاظت سے متعلق معاملے پر غور کر رہے ہیں، اس لیے ہم ملک بھر میں احتجاجی مظاہرہ کر رہے ڈاکٹروں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ کام پر لوٹ آئیں۔ اس مظاہرہ کی وجہ سے مریضوں کو علاج سے متعلق خدمات ملنے میں دقتیں پیش آ رہی ہیں۔ اس درمیان سپریم کورٹ نے اعلان کیا کہ وہ کولکاتا حادثہ کے بعد ڈاکٹروں کی حالت کو لے کر نیشنل ٹاسک فورس بنانے جا رہے ہیں۔ یہ ٹاسک فورس عدالت کی نگرانی میں کام کرے گی۔ سپریم کورٹ نے کولکاتا عصمت دری و قتل معاملے میں سی بی آئی سے 22 اگست تک اسٹیٹس رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ ساتھ ہی سی بی آئی کو تین ماہ کے اندر اپنی جانچ پوری کر رپورٹ سونپنے کا بھی حکم صادر کیا ہے۔ علاوہ ازیں عدالت نے ٹاسک فورس کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنی رپورٹ تین ہفتے کے اندر پیش کرے۔


آج ہوئی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے زیر تربیت خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری و قتل معاملے میں پولیس کی کارروائی پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ عدالت نے پولیس سے متاثرہ کے کنبہ کو تاریکی میں رکھنے سے متعلق الزامات کو لے کر سوالات پوچھے۔ عدالت نے کہا کہ یہ ایک جرم کا معاملہ نہیں ہے، اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے میں بھی تاخیر ہوئی۔ یہ اسپتال کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایف آئی آر درج کرائے، لیکن دیر رات ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ عدالت عظمیٰ نے پوچھا کہ اسپتال انتظامیہ اس معاملے میں آخر کر کیا رہا تھا؟ سرپرستوں کو بھی متاثرہ کی لاش کافی دیر بعد سونپی گئی۔ ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر درج کرنے میں بلاوجہ تاخیر ہو رہی ہے۔ ریاست کو یہ یقینی کرنا چاہیے کہ توڑ پھوڑ کرنے والوں کو پکڑا جائے۔ ہم یہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ ریاستی حکومت اسپتال میں ہوئی توڑ پھوڑ کے معاملوں کو کیوں نہیں سنبھال پائی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔