’مرکزی وزیر نے بیف پاس جاری کیا‘، مہوا موئترا نے شانتنو ٹھاکر پر لگایا سنگین الزام

مہوا موئترا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کیے گئے پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر شانتنو ٹھاکر اپنے آفیشیل لیٹر ہیڈ سے اسمگلرس کو بنگلہ دیش بیف لے جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>مہوا موئترا / آئی اے این ایس</p></div>

مہوا موئترا / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے مرکزی وزیر شانتنو ٹھاکر پر سنگین الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے شانتنو کی طرف سے جاری کیے گئے ایک ’بیف پاس‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بی ایس ایف کو ہدایت دی گئی تھی کہ پاس رکھنے والے کو بیف لے جانے کی اجازت دی جائے۔ اس ’بیف پاس‘ معاملہ نے بنگال کی سیاست میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔

مہوا موئترا نے اس تعلق سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر 8 جولائی کو ایک پوسٹ کیا تھا جس میں دعویٰ کیا کہ بی جے پی کے وزیر شانتنو ٹھاکر اپنے آفیشیل لیٹر ہیڈ سے اسمگلرس کو بنگلہ دیش بیف لے جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ حالانکہ شانتنو نے مہوا کے الزامات کو خارج کر دیا ہے۔ اپنے پہلے ٹوئٹ کے بعد موئترا نے پھر ایک ٹوئٹ کیا جس میں لکھا ’بی ایس ایف جھوٹ بول رہی ہے اگر وہ کہتی ہے کہ یہی طریقہ کار ہے۔ اگر ایسا ہے تو وزیر محترم بیف ٹرانسپورٹرس سے فی پرچی 200 روپے کیوں لے رہے ہیں۔‘‘


دراصل ترنمول رکن پارلیمنٹ نے ’ایکس‘ پر پیر کے روز مرکزی وزیر شانتنو ٹھاکر کی طرف سے جاری کیے ہوئے ’پاس‘ کی تصویر شیئر کی تھی اور اس پوسٹ کے آخر میں مہوا نے لکھا تھا ’’ہیلو نمستے HMOIndia، گئو رکشک سینا، گودی میڈیا۔‘‘ ان کے پوسٹ کرتے ہی ’ایکس‘ پر لوگ شانتنو ٹھاکر سے سوال پوچھنے لگے تھے۔ معاملے کو طول پکڑتا دیکھ انھوں نے اپنی صفائی پیش کی اور موئترا کے الزامات کو خارج کر دیا۔

شانتنو ٹھاکر نے خبر رساں ایجنسی ’پی ٹی آئی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’کوئی شخص تین کلو بیف کی اسمگلنگ کیوں کرے گا؟ کیا یہ عجیب نہیں ہے؟ وہ جانتی ہیں کہ سرحدی علاقوں میں لوگوں کی آسانی کے لیے ایسے پاس جاری کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے قصداً اس بات کو چھپایا ہے۔‘‘ دوسری طرف بی ایس ایف ذرائع نے بتایا کہ ایسی پرچی سرحدی علاقوں میں پنچایت کے ذریعہ عام لوگوں کو سامان لے جانے کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ ان پرچیوں سے کسی بھی حالت میں سامان بنگلہ دیش نہیں لے جایا جا سکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔