قدیم عبادت گاہوں پر دعویٰ سے روکنے والے ’پلیسز آف وَرشپ ایکٹ‘ رد کرنے کے مطالبہ پر سپریم کورٹ نے مرکز سے جواب طلب کیا
جمعیۃ علما ہند نے اپنی عرضی میں کہا ’’سپریم کورٹ کہہ چکا ہے کہ ایودھیا کو چھوڑ کر باقی معاملوں میں پلیسز آف ورشپ ایکٹ پر عمل نہیں ہوگا، اس لیے قانون کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر سماعت نہیں ہونی چاہیے
’پلیسز آف ورشپ ایکٹ، 1991‘ (جو کہ قدیم عبادت گاہوں پر دعویٰ سے روکتا ہے) کے خلاف داخل عرضیوں پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے دو ہفتہ میں جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس قانون کے خلاف داخل عرضیوں کے علاوہ جمعیۃ علماء ہند نے اس قانون کی حمایت میں عرضی داخل کی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس سلسلے میں بھی نوٹس جاری کیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ادے امیش للت کی صدارت والی بنچ نے کہا ہے کہ 11 اکتوبر کو معاملے پر سماعت ہوگی اور یہ معاملہ 3 ججوں کی بنچ کے سامنے پیش ہوگا۔
واضح رہے کہ 1991 کا پلیسز آف ورشپ ایکٹ سبھی مذہبی مقامات کی حالت 15 اگست 1947 ولای بنائے رکھنے کی بات کہتا ہے۔ اسے چیلنج دینے والی کئی عرضیاں سپریم کورٹ میں داخل ہوئی ہیں۔ ان عرضیوں میں اس قانون کو بنیادی اور آئینی حقوق کے خلاف بتایا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ قانون ہندو، جین، سکھ اور بودھ طبقہ کو اپنا حق مانگنے سے محروم کرتا ہے۔
بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے نے 12 مارچ 2021 کو مذکورہ ایکٹ کے خلاف عرضی داخل کی تھی جس پر مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا گیا۔ اس عرضی میں بتایا گیا ہے کہ 1991 میں جب پلیسز آف ورشپ ایکٹ بنا تب بابری مسجد-رام مندر معاملہ پہلے سے عدالت میں زیر التوا تھا۔ اس لیے اسے مستثنیٰ رکھا گیا، لیکن کاشی-متھرا سمیت باقی سبھی مذہبی مقامات کے لیے یہ کہہ دیا گیا کہ ان کی حالت نہیں بدل سکتی۔ اس طرح کا قانون انصاف کا راستہ بند کرنے جیسا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ابھی تک حکومت نے اس عرضی پر جاری نوٹس کا جواب داخل نہیں کیا ہے۔ اب عدالت نے حکومت کو اس کے لیے دو ہفتہ کا وقت دیا ہے۔
بہرحال، مسلمانوں کی مشہور تنظیم جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں جو عرضی داخل کی ہے اس میں کہا ہے کہ ایودھیا تنازعہ کے فیصلے میں سپریم کورٹ واضح کر چکا ہے کہ باقی معاملوں میں ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ‘ پر عمل نہیں ہوگا۔ اس لیے اب اس قانون کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر سماعت نہیں ہونی چاہیے۔ اس طرح کی سماعت سے مسلم طبقہ میں خوف اور عدم تحفظ کا ماحول بنے گا۔ جمعیۃ نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک بھر کی عدالتوں میں الگ الگ مسجدوں کو مندر بتاتے ہوئے جو دعوے داخل کیے گئے ہیں، انھیں بھی خارج کیا جانا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔