مسلم اور عیسائی دلتوں کو بھی درج فہرست ذات کا درجہ دینے کے مطالبہ پر سپریم کورٹ نے وسیع سماعت کا دیا اشارہ!
جسٹس سنجے کشن کول، احسان الدین اور اروند کمار کے سامنے کچھ شیڈولڈ کاسٹ تنظیموں نے بھی اپنی بات رکھی، انھوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو درج فہرست ذات کا درجہ دینے پر سماعت نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔
مسلم اور عیسائی دلتوں کو بھی درج فہرست ذات کا درجہ دینے کے مطالبہ پر سماعت کا خاکہ جولائی میں طے ہوگا۔ سپریم کورٹ میں ہوئی سماعت میں مرکز نے سابق چیف جسٹس کے جی بالاکرشنن کی قیادت میں بنی کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار کرنے کی دلیل دی۔ اس پر عرضی دہندگان نے کہا کہ 19 سال سے معاملہ زیر التوا ہے۔ آئینی سوالوں پر غور کیا جانا چاہیے۔ اس کے بعد عدالت نے کہا کہ سبھی فریق تحریری نوٹ جمع کروائیں، 11 جولائی کو آگے کی سماعت پر حکم جاری کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ 1936 میں برطانوی حکومت کی طرف سے جاری حکم میں کہا گیا تھا کہ مذہب تبدیل کر عیسائی بنے دلتوں کو محروم طبقہ نہیں مانا جائے گا۔ 1950 میں صدر جمہوریہ کی طرف سے جاری ’دی کانسٹی ٹیوشن (شیڈیولڈ کاسٹس) آرڈر‘ میں اس بات کا التزام ہے کہ صرف ہندو، سکھ اور بودھ طبقہ سے جڑے دلتوں کو ہی درج فہرست ذات کا درجہ ملے گا۔ چونکہ مسلم اور عیسائی سماج میں ذات نظام کے نہ ہونے کی بات کہی جاتی ہے، اس لیے ہندو سے مسلم یا عیسائی بنے لوگ سماجی تفریق کی بنیاد پر خود کو الگ درجہ دینے کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔
1950 کے صدارتی حکم کو 1980 کی دہائی میں سپریم کورٹ میں چیلنج پیش کیا گیا تھا۔ ’سوسائی بنام حکومت ہند‘ نام سے مشہور اس معاملے پر 1985 میں فیصلہ آیا تھا۔ فیصلے میں سپریم کورٹ نے مسلم اور عیسائی دلتوں کو درج فہرست ذات کا درجہ دینے سے منع کر دیا تھا۔ عدالت نے مانا تھا کہ صدارتی حکم کافی غور و خوض کے بعد جاری کیا گیا تھا۔ ایسی کوئی بھی بات یا ڈاٹا نہیں ہے جس کی بنیاد پر مذہب تبدیل کر چکے لوگوں کو محروم یا استحصال زدہ مانا جا سکے۔
بعد ازاں غازی سعد الدین نامی عرضی دہندہ نے 2004 میں سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر مسلم دلتوں کو بھی ریزرویشن کا فائدہ دینے کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد عیسائی تنظیموں کی طرف سے بھی کئی عرضیاں داخل ہوئیں جن میں مذہب تبدیل کر چکے لوگوں کو بھی درج فہرست ذات کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ عرضیاں ابھی تک زیر التوا ہیں۔ عدالت نے 2011 میں وسیع سماعت کے لیے آئینی سوال طے کیے تھے، لیکن سماعت نہیں ہو سکی۔ 2007 میں اس وقت کی منموہن سنگھ حکومت نے سابق چیف جسٹس رنگناتھ مشرا نے 2009 میں اپنی رپورٹ دی۔ اس میں سبھی مذاہب کے لوگوں کو درج فہرست ذات کا درجہ دینے کی سفارش کی گئی۔ انھوں نے مسلم اور عیسائیوں کو ریزرویشن کا فائدہ دینے کا بھی مشورہ دیا۔
7 اکتوبر 2022 کو مرکزی حکومت نے سابق چیف جسٹس کے جی بالاکرشنن کی صدارت میں 3 رکنی کمیشن بنایا۔ یہ کمیشن اس بات کا تجزیہ کرے گا کہ کیا مذہب تبدیل کر مسلم یا عیسائی بن چکے دلتوں کو درج فہرست ذات کا درجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کمیشن کو اپنی رپورٹ دینے کے لیے 2 سال کا وقت دیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل کے ایم نٹراج نے بالاکرشنن کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کرنے کا مشورہ دیا۔ عرضی دہندگان کے لیے پیش پرشانت بھوشن، کالن گونجالوس، سی یو سنگھ جیسے وکلا نے سماعت ملتوی کرنے کی مخالفت کی۔ انھوں نے آئینی سوالوں پر غور کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہب کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو درج فہرست ذات نہ ماننا برابری کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس سنجے کشن کول، احسان الدین امان اللہ اور اروند کمار کے سامنے کچھ شیڈولڈ کاسٹ تنظیموں نے بھی اپنی بات رکھی۔ انھوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو درج فہرست ذات کا درجہ دینے پر سماعت نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس پر جسٹس امان اللہ نے کہا کہ ’’یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جو دلت مذہب تبدیل کر چکے ہیں وہ سماجی تفریق سے آزاد ہو گئے۔ آئین چھوا چھوت اور تفریق کو منظوری نہیں دیتا۔ چھوا چھوت مخالف قانون بھی ہے۔ پھر تو درج فہرست ذاتوں کو بھی ریزرویشن کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ چھوا چھوت کے خلاف قانون ہونے کے باوجود جب ریزرویشن ضروری ہے، تو مذہب تبدیل کر چکے لوگوں کے بارے میں بھی سماعت ہونی چاہیے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔