بجھ گیا مغربی بنگال میں لیفٹ کی سیاست کا ’آخری چراغ‘، سابق وزیر اعلیٰ بدھا دیب بھٹاچاریہ کا انتقال

مغربی بنگال میں بایاں محاذ کی 34 سالہ حکمرانی کے دوران بدھادیب بھٹاچاریہ سی پی ایم کے دوسرے اور آخری وزیر اعلیٰ تھے جو سال 2000 سے 2011 تک لگاتار 11 سالوں تک عہدہ پر رہے۔

<div class="paragraphs"><p>بدھادیب بھٹاچاریہ کی فائل تصویر</p></div>

بدھادیب بھٹاچاریہ کی فائل تصویر

user

قومی آواز بیورو

مغربی بنگال کے سابق وزیر اعلیٰ اور سی پی ایم لیڈر بدھادیب بھٹاچاریہ کا طویل بیماری کے بعد جمعرات کی صبح کولکاتا میں انتقال ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی بنگال میں لیفٹ کی سیاست کا ’آخری چراغ‘ بھی بجھ گیا۔ ایسا اس لیے کہا جا سکتا ہے کیونکہ اب اس ریاست میں اس قد کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ مغربی بنگال میں بایاں محاذ کی 34 سالہ حکمرانی کے دوران بدھادیب بھٹاچاریہ سی پی ایم کے دوسرے اور آخری وزیر اعلیٰ تھے جو سال 2000 سے 2011 تک لگاتار 11 سالوں تک عہدہ پر رہے۔

بدھادیب بھٹاچاریہ کے بیٹے سچیتن بھٹاچاریہ نے بتایا کہ ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تھی جس کے بعد اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ان کی حالت میں بہتری نہیں ہو رہی تھی اور جمعرات کی صبح انھوں نے آخری سانس لی۔ بتایا جاتا ہے کہ بدھادیب کی حالت گزشتہ سال 29 جولائی کو بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی اور انھیں 9 اگست تک اسپتال میں رہنا پڑا تھا۔ اس کے بعد وہ اکثر علیل رہنے لگے۔ ان کا نمونیا کا علاج چل رہا تھ اور کچھ دیگر بیماریوں میں بھی وہ مبتلا ہو گئے تھے۔


قابل ذکر ہے کہ بدھادیب بھٹاچاریہ کی پیدائش 9 مارچ 1944 کو ہوئی تھی۔ وہ 2000 میں مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ بنے اور 2011 تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ وہ جادھپور اسمبلی حلقہ سے لگاتار جیتتے رہے۔ وہ لگاتار 24 سالوں تک رکن اسمبلی رہنے کے بعد اپنی ہی حکومت کے سابق چیف سکریٹری منیش گپتا سے انتخاب ہار گئے تھے۔ بدھادیب تقریباً 18 سال تک جیوتی بسو کی کابینہ میں وزیر بھی رہے اور وزارت داخلہ سمیت کئی اہم وزارتوں میں کام کیا۔ وہ پہلی بار 1977 میں کوسی پور اسمبلی حلقہ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور پھر وزیر ثقافت بنائے گئے تھے۔

بدھا دیب بھٹاچاریہ اپنی سادگی کے لیے بہت مشہور تھے۔ وزیر اعلیٰ رہنے کے دوران بھی انھوں نے بڑا بنگلہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ پانچ دہائی کی طویل سیاست، 18 سال تک وزیر اور 11 سال تک وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد بھی ان کے پاس نہ ہی بنگلہ تھا اور نہ ہی کار۔ وہ اپنی تنخواہ بھی پارٹی فنڈ میں ہی ڈالتے رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جب وہ وزیر اور وزیر اعلیٰ تھے، تب بھی ان کا کنبہ پبلک ٹرانسپورٹ سے ہی سفر کرتا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔