مسلم اکثریتی علاقے کو ’پاکستان‘ بتانے والے ہائی کورٹ جج کو ملی ’سپریم‘ نصیحت، معافی مانگنے کے بعد کارروائی بند
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ ہم ہندوستان کے کسی بھی حصے کو پاکستان کی طرح نہیں بتا سکتے، عدالتوں کو محتاط رہنا چاہیے کہ عدالتی کارروائی کے دوران ایسے تبصرے نہ کیے جائیں۔
گزشتہ دنوں کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک جج نے مسلم اکثریتی علاقہ کو ’پاکستان‘ کہہ دیا تھا جس پر کافی تنازعہ ہو گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی ہائی کورٹ جج کے بیان کی سرزنش کی تھی، اور آج (25 ستمبر) ایک بار پھر عدالت عظمیٰ نے جج کو ان کے قابل اعتراض تبصرہ پر اہم نصیحتیں دیں اور پھر اس کارروائی کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔
دراصل ہائی کورٹ جج شری شیشانند نے ایک معاملے پر سماعت کرتے ہوئے بنگلورو کے مسلم اکثریتی علاقہ کو ’پاکستان‘ بتا دیا تھا۔ ساتھ ہی انھوں نے ایک خاتون وکیل پر بھی قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا۔ ان دونوں ہی تبصروں پر ہائی کورٹ جج کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ آج چیف جسس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے اس معاملے پر سماعت کے دوران کہا کہ ہم ہندوستان کے کسی بھی حصے کو پاکستان کی طرح نہیں بتا سکتے۔ ساتھ ہی عدالتوں کو محتاط رہنا چاہیے کہ عدالتی کارروائی کے دوران ایسے تبصرے نہ کیے جائیں جنھیں خواتین سے نفرت پر مبنی یا سماج کے کسی بھی طبقہ کے تئیں تعصب زدہ مانا جائے۔
سپریم کورٹ کی بنچ نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ عدالتی کارروائی کے دوران اچانک کیے گئے تبصرے تعصب کو ظاہر کر سکتے ہیں، خصوصاً جب انھیں جنس یا طبقہ کے خلاف مانا جائے۔ ہم کسی خاص جنس یا طبقہ پر تبصروں کے بارے میں اپنی سنجیدہ فکر ظاہر کرتے ہیں۔ ایسے تبصروں کو منفی طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ ہمیں امید ہے اور بھروسہ ہے کہ سبھی متعلقین کو سونپی گئی ذمہ داریاں بغیر کسی تعصب اور احتیاط کے نبھائی جائیں گی۔
سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بتایا کہ ہائی کورٹ کے جج نے تبصرہ کے لیے افسوس ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے اب معافی بھی مانگ لی ہے، اس لیے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ تشار مہتا نے یہ بھی کہا کہ کبھی کبھی ہم کچھ کہہ دیتے ہیں، اس لیے معاملے کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔ پھر چیف جسٹس کی صدارت والی پانچ رکنی بنچ نے کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے جج جسٹس وی شری شیشانند نے اپنے تبصروں کے لیے کھلی عدالت میں 21 ستمبر کو معافی مانگ لی ہے، اس لیے کارروائی بند کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے ایک خاتون وکیل کے خلاف تبصرہ اور ایک دیگر معاملے میں بنگلورو کے مسلم اکثریتی علاقے کو ’پاکستان‘ کہے جانے پر 20 ستمبر کو از خود نوٹس لیا تھا۔ اس دن چیف جسٹس کی صدارت والی پانچ ججوں کی بنچ نے آئینی عدالتوں کے ججوں کے تبصرہ کے لیے واضح گائیڈلائنس طے کرنے کی ضرورت بتائی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔