’پاپ کی لنکا کا زوال قریب‘، راہل گاندھی مرکز میں انڈیا بلاک کی حکومت بننے کو لے کر پُرامید
راہل گاندھی نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ہے کہ جب وزیر اعظم خود کو شہنشاہ اور درباری انھیں بھگوان سمجھنے لگیں تو مطلب صاف ہے کہ پاپ کی لنکا کا زوال قریب ہے۔
لوک سبھا انتخاب کی سرگرمیوں کے درمیان راہل گاندھی مرکز میں انڈیا بلاک کی حکومت بننے کو لے کر پُرامید نظر آ رہے ہیں۔ ایک طرف وہ وزیر اعظم نریندر مودی کو لگاتار تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، اور دوسری طرف عام انتخاب میں انڈیا بلاک کی کامیابی کو یقینی بتا رہے ہیں۔ اس درمیان انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’جب وزیر اعظم خود کو شہنشاہ اور درباری انھیں بھگوان سمجھنے لگیں تو مطلب صاف ہے کہ پاپ کی لنکا (گناہ کی آماجگاہ) کا زوال قریب ہے۔‘‘
اپنے اس پوسٹ میں راہل گاندھی نے تکبر کو تباہی کی ایک بڑی وجہ بتایا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’کروڑوں لوگوں کے عقیدہ کو چوٹ پہنچانے کا حق مٹھی بھر بی جے پی کے لوگوں کو آخر کس نے دیا؟ یہ تکبر ہی ان کی تباہی کی وجہ بن رہی ہے۔‘‘
دوسری طرف کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے لوک سبھا انتخاب کا پانچواں مرحلہ ختم ہونے کے بعد ایک پوسٹ کر اب تک کی انتخابی مہم کا اختصار پیش کیا ہے۔ انھوں نے اس پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’پانچویں مرحلہ کی ووٹنگ ختم ہونے کے ساتھ ہی 428 سیٹوں پر پولنگ کا عمل انجام پا چکا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم کی وداعی کے اب صرف پندرہ دن باقی رہ گئے ہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ 2024 کے اب تک لوک سبھا انتخابی مہم کا اختصار پیش کرتے ہوئے پانچ نکات دیے ہیں جو ذیل میں پیش ہیں۔
پہلے مرحلہ سے جو ٹرینڈ شروع ہوا تھا، وہ دھیرے دھیرے مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ یہ واضح ہے کہ بی جے پی جنوب میں صاف اور شمال، مغرب و مشرق میں ہاف ہونے جا رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ انڈیا اتحاد پہلے ہی 272 سیٹوں کے نصف اعداد و شمار کو پار کر چکا ہے اور مجموعی طور پر 350 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کی طرف برھ رہا ہے۔ مودی جی کا جانا اب تقریباً طے ہو گیا ہے۔ کمر توڑ مہنگائی، ریکارڈ توڑ بے روزگاری اور آئین کو بدلنے و ریزرویشن کو ختم کرنے کی بی جے پی کی دھمکیاں خاص طور سے وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے لوگ اس حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے جا رہے ہیں۔
یہ انتخاب کانگریس پارٹی کی مثبت مہم کے آس پاس مرکوز رہا ہے۔ ہمارا نیائے پتر اور ہماری گارنٹیاں سبھی پارٹیوں کی تشہیری مہم کے مرکز میں رہیں۔ ’کھٹا کھٹ‘ کے نعرے نے لوگوں کا دھیان اس حد تک کھینچ لیا ہے کہ موجودہ پی ایم بھی اس پر رد عمل دینے کو مجبور ہو گئے۔ قومی فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے تحت ہر شخص کے لیے مفت اناج کی مقدار کو دو گنا کرنے کی ہماری آخری گارنٹی کے اعلان نے شمالی و مشرقی ہند میں زوردار اثر ڈالا ہے۔
جیسے جیسے وزیر اعظم کے اقتدار کے آخری دن قریب آ رہے ہیں، وہ باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے، دھیان بھٹکانے اور بدنام کرنے کی اپنی منفی سیاست کی مزید نچلی سطح تک اترتے جا رہے ہیں۔ ایک بھی مثبت ایجنڈے کے ساتھ انتخابی میدان میں نہ اترنے اور ’400 پار‘ و ’مودی کی گارنٹی‘ جیسے نعروں کو چھوڑنے کے لیے مجبور ہونے کے بعد موجودہ وزیر اعظم نے اشتعال انگیز فرقہ وارانہ رخ اختیار کر لیا تھا۔ فرقہ وارانہ ڈھنگ سے ان کے نفرت بھڑکانے والے بیانات اور دس سال کی مدت کار کے بعد بھی مثبت ایجنڈے پر انتخاب نہ لڑنے کی ان کی ناکامی کے سبب عوام ان سے دور ہوتی چلی گئی ہے۔ لوگوں کے رد علم سے گھبرا کر وزیر اعظم نے اب بے شرمی سے کہا ہے کہ اگر انھیں کبھی ہندو-مسلم سیاست کا سہارا لینا پڑا تو وہ ’پبلک لائف‘ میں رہنے کے اہل نہیں رہ جائیں گے۔
اس درمیان الیکشن کمیشن کی گہری نیند افسوسناک رہی ہے۔ موجودہ وزیر اعظم کی قیادت میں بی جے پی ہر دن مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ ووٹنگ میں مذہبی علامتوں کا استعمال، ووٹنگ کے دن اشتہار، سوشل میڈیا پر بی جے پی کارکنان کے ذریعہ بار بار پولنگ کرتی ہوئی ویڈیو جاری کرنا، ان سبھی نے موجودہ وزیر اعظم کو جواب دہ ٹھہرانے کے الیکشن کمیشن کی صلاحیت پر سوال اٹھائے ہیں۔ ہم ووٹنگ کے اختتام کے بعد جتنا جلدی ممکن ہو سکے ووٹنگ کے آخری نمبرس کی اشاعت کی امید کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا پانچ نکات پیش کرنے کے بعد جئے رام رمیش نے لکھا ہے کہ ’’ہر طرف سے آ رہی گراؤنڈ رپورٹس بالکل واضح ہے- ہوا بدل چکی ہے، اب آندھی کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ انڈیا جَن بندھن این ڈی اے کو شکست دینے کے لیے تیار ہے۔ چار جون آ رہا ہے۔ بدلے گا بھارت، جیتے گا انڈیا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔