اسقاط حمل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ کئی معنوں میں اہم، سماجی اور قانونی دونوں شعبوں پر پڑے گا اثر!

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس جے بی پاردی والا کی بنچ نے ایم ٹی پی ایکٹ کی جو تشریح کی ہے، ہمیں اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ/ تصویر آئی اے این ایس
سپریم کورٹ/ تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز تجزیہ

سپریم کورٹ نے بچوں کی ولادت اور اسقاط حمل سے متعلق خواتین کے حقوق کو لے کر آج ایک انتہائی تاریخی فیصلہ سنایا۔ اب ملک کی سبھی خواتین کو یہ قانونی حق مل گیا ہے کہ وہ اپنے حمل میں پرورش پا رہے بچے کو پیدا کرنا چاہتی ہیں، یا پھر ابورشن یعنی اسقاط حمل کرانا چاہتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے میڈیکل ٹرمنیشن آف پرگنینسی (ایم ٹی پی) ایکٹ کے التزامات کی تشریح کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ سبھی خواتین کو قانونی طریقے سے 24 ہفتہ تک کے حمل کو حفاظت کے ساتھ ختم کرانے کا حق ہے۔ عدالت نے ساتھ ہی یہ بھی صاف کر دیا کہ کسی خاتون کو 24 ہفتہ کے حمل کو ختم کرانے کا حق صرف اس لیے نہیں چھینا جا سکتا کیونکہ اس کی شادی نہیں ہوئی۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس جے بی پاردی والا کی بنچ نے کہا کہ ایسا کرنا آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہوگی۔

اب ہمارے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا سماجی اور قانونی طور پر کیا اثر دکھائی دے گا۔ یعنی اس فیصلہ کے کس طرح کے اثرات عوام، خصوصاً خواتین پر مرتب ہوں گے۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس جے بی پاردی والا کی بنچ نے ایم ٹی پی ایکٹ کی جو تشریح کی ہے، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بنچ نے کہا ہے کہ شادی شدہ خواتین کی طرح غیر شادی شدہ اور سنگل ماؤں کو بھی حق ہوگا کہ وہ 24 ہفتے تک کے حمل کا اسقاط کروا سکیں۔ یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ عام معاملوں میں 20 ہفتے سے زیادہ اور 24 ہفتے تک کے حمل کو ختم کرنے کا حق اب تک شادی شدہ خواتین کو ہی تھا۔ اب غیر شادی شدہ، سنگل اور لیو-اِن میں رہنے والی خواتین کو بھی یہ حق مل گیا ہے۔


سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ کسی قانون کا فائدہ کند پدرانہ دقیانوسی تصورات کی بنیاد پر طے نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے قانون کی روح ہی ختم ہو جائے گی۔ عدالت نے کہا کہ 24-20 ہفتہ کے درمیان کا حمل رکھنے والی سنگل یا غیر شادی شدہ حاملہ خواتین کو اسقاط حمل سے روکنا، جب کہ شادی شدہ خواتین کو ایسی حالت میں اسقاط حمل کی اجازت دینا آئین کے آرٹیکل 14 کے روح کی خلاف ورزی ہوگی۔ عدالت کے مطابق خاتون کی ازدواجی حالت اس سے ایک ناپسندیدہ حمل کو ختم کرنے کے حق کو نہیں چھین سکتی ہے۔ خاتون چاہے شادی شدہ ہو یا پھر غیر شادی شدہ، اسے ایم ٹی پی ایکٹ کے تحت 24 ہفتے تک کے حمل کو ختم کرانے کا حق ہے۔

آج سنائے گئے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے یہ بات بھی کہی کہ ایم ٹی پی ایکٹ کے دائرے میں میریٹل ریپ (ازدواجی عصمت دری) بھی آئے گا۔ اس پر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ شادی شدہ خواتین بھی جنسی زیادتی سے متاثر کی کیٹگری میں آ سکتی ہیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ایک خاتون اپنے شوہر کے ساتھ بغیر اتفاق سے بنے جنسی رشتوں کی وجہ سے حاملہ ہو سکتی ہے۔ ایسی خواتین ایم ٹی پی ایکٹ رول 3 بی (اے) کے دائرے میں آئیں گی۔ ایسی شادی شدہ خواتین 24 ہفتے تک کے حمل کو ختم کرانے کے لیے ایم ٹی پی ایکٹ کا استعمال کر سکتی ہیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ قریبی ساتھی کے ذریعہ تشدد مبنی بر حقیقت ہے، اور جنسی رویہ کے دوران یہ تشدد عصمت دری کا شکل لے سکتی ہے۔ یہ غلط سوچ ہے کہ سیکس اور جنس سے جڑے تشدد کے لیے صرف اجنبی ہی ذمہ دار ہیں۔


آج سپریم کورٹ کے ذریعہ سنائے گئے فیصلے میں اگر سب سے اہم بات کی طرف دھیان دی جائے تو وہ یہ ہے کہ اگر نابالغ لڑکی اتفاق سے جنسی رشتہ قائم کرتی ہے اور اسے 24 ہفتہ کے اندر ہی اسقاط حمل کرانے کی نوبت آتی ہے تو وہ ایسا کرا سکتی ہے۔ نابالغ کی شناخت محفوظ رکھنے کے لیے عدالت نے ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹر اس کی شناخت کو ظاہر نہیں کر سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔