وزیر تعلیم نے پیپر لیک سے کیا انکار تو کانگریس نے پیش کر دی فہرست، شمار کرائے 25 معاملات
راہل گاندھی نے کہا کہ وزیر تعلیم نے سپریم کورٹ اور وزیر اعظم کی بات کی لیکن وہ یہ نہیں بتا پا رہے ہیں کہ نیٹ کے معاملے پر کیا کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اس پر بحث کرے لیکن وہ تیار نہیں ہے۔
پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن کی جانب سے نیٹ اور پیپر لیک کا معاملہ اٹھایا گیا، جس پر ایوان میں کافی ہنگامہ ہوا۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے یہ معاملہ اٹھاتے ہوئے وزیر تعلیم سے سوال کیا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کے سوال اٹھانے پر وزیر تعلیم نے پیپر لیک کے معاملات سے ہی انکار کر دیا اور کہا کہ 7 سالوں میں 70 بار پیپر لیک کا ایسا کوئی ڈیٹا یا ثبوت نہیں ہے جو اس کی تصدیق کرے۔ وزیر تعلیم کے اس بیان کے بعد ایوان میں کافی ہنگامہ ہوا۔
پارلیمنٹ میں وزیر تعلیم کے اس بیان پر کہ گزشتہ 7 سالوں میں پیپر لیک کی تصدیق کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے، کانگریس پارٹی کی جانب سے تاریخ کے ساتھ اس کا جواب دیا گیا ہے۔ کانگریس پارٹی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نریندر مودی اور ان کے وزیروں کو جھوٹ بولنے کی بری عادت ہے۔ آج مودی حکومت کے وزیر تعلیم نے ایوان میں کھڑے ہوکر صاف جھوٹ بولا ہے۔ وزیر نے کہا کہ گزشتہ سات سال میں کوئی پیپر لیک نہیں ہوا۔ وزیر صاحب یہ فہرست آپ کے لیے ہے۔
اسی پوسٹ کے ساتھ کانگریس نے پیپر لیک کی 25 فہرست پیش کی ہے جو اگست 2014 سے جون 2024 کے درمیان کی ہے۔ اس میں جون 2015 میں ہوا آرمی ریکروٹمنٹ امتحان، جولائی 2016 میں ہوا نیٹ پیپر لیک، مئی 2017 میں ہوا نیٹ پیپر لیک، دسمبر 2018 میں ہوا گجرات پولیس کانسٹیبل ریکروٹمنٹ پیپر لیک، مارچ 2019 میں ہوا مہاراشٹر بورڈ 10ویں امتحان کے دو پپیر لیک، مئی 2024 میں ہوئے نیٹ پیپر لیک جیسے واقعات شامل ہیں۔
اس درمیان پارلیمنٹ کے باہر اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے وزیرتعلیم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر تعلیم کو نیٹ کے معاملے پر جواب دینا چاہئے۔ وزیر تعلیم نے سپریم کورٹ اور وزیر اعظم کی بات کی، لیکن وہ یہ نہیں بتا پا رہے کہ وہ خود نیٹ کے معاملے پر کیا کر رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے کہا کہ ملک کے نوجوانوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اس پر بحث کرے لیکن وہ تیار نہیں ہے، لیکن ہم یہ معاملہ اٹھاتے رہیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔