’بھارت جوڑو یاترا‘ نے کئی معنوں میں لمبا راستہ طے کیا ہے
ایک صحافی دوست نے سوال پوچھا کہ ہم نے ہندوستان کو کتنا متحد کیا ہے۔ تو میں نے کہا کہہ جب تک یہ نہیں سمجھیں گے کہ ہم کتنے منقسم ہیں تبھی آپ سمجھیں گے کہ ہم کتنے قریب آئے ہیں۔
جب ہم نے 7 ستمبر کو یاترا شروع کی تو مختلف سوالات تھے، کیا روزانہ 25 کلومیٹر کا سفر کرنا ممکن ہے؟ کون ساتھ آنا پسند کرے گا؟ کیا لوگ ساتھ آنا پسند کریں گے؟ آج 60 دن کے سفر کے بعد، مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ وہ سوالات پیچھے رہ گئے ہیں۔ جیسا کہ ہمیں اسکول کے دنوں میں سکھایا جاتا تھا کہ جب آپ آگے بڑھتے ہیں تو صرف پاؤں ہی نہیں آگے بڑھتے بلکہ آپ کا دل، آپ کی ہمت، آپ کے ساتھ چلنے والے لوگ بھی آگے بڑھتے ہیں۔ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی کامیابی سے توقعات بڑھ گئی ہیں اور اس کہاوت کا صحیح مطلب ہم تک پہنچ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : اعظم خان کے خلاف جو ہو رہا ہے وہ سراسر زیادتی ہے... ظفر آغا
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سب آسان تھا۔ پچھلے 60 دن جسمانی طور پر تھکا دینے والے تھے لیکن ہم اس سے ابر گئے اور اس بات سے حیران ہیں کہ یہ دن کتنی جلدی گزر گئے۔ اس دوران میں نے ساتھی مسافروں سے بہت سی دوسری چیزیں سیکھی ہیں۔ یہ انسانی طرز عمل کے معاملہ میں ایک قسم کا کریش کورس رہا ہے۔
یاترا میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جو براہ راست کانگریس پارٹی سے وابستہ ہیں اور دوسرے وہ جو براہ راست جڑے نہیں ہیں لیکن ہمارے ساتھ آئے ہیں۔ چھتوں پر کھڑے لوگ، دکانوں کے سامنے کھڑے لوگ، گاؤں کے داخلی راستوں پر کھڑے لوگ، اپنے موبائل پر ویڈیو بنا رہے لوگ- ان کی آنکھیں اور ان کے چہرے ہمیں محسوس کراتے ہیں کہ یہ سفر کتنا اہمیت کا حامل ہے۔ ہم ان چہروں کو پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں کتنے چیلنجوں پر قابو پانا ہے۔ ہم ایک نئی امید کے آثار دیکھ رہے ہیں۔
مثال کے طور پر ہمارے ساتھ آنے والی خواتین یاتریوں نے (یاد رکھیں وہ پارٹی کارکن نہیں ہیں) مہنگائی اور خاندان چلانے کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے بارے میں بات کی۔ نوجوانوں نے کم ہوتی ہوئی ملازمتوں اور روزگار میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کی بات کی۔ فوج میں بھرتی کی تیاری کرنے والوں نے بھی بے روزگاری پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ یاترا جہاں سے بھی گزری مختلف مقامات پر کپاس، سویابین یا گنا اگانے والے کسانوں نے اپنی مختلف مشکلات بیان کیں۔ خواتین کی حفاظت، کسانوں کی بڑھتی ہوئی لاگت اور انہیں ملنے والی کم قیمت، مزدوروں کے لیے مناسب اجرت، نوجوانوں کے لیے روزگار اور مہنگائی- یہ تمام مسائل یاترا کے دوران ہمارے سامنے آئے۔
مین اسٹریم میڈیا میں یاترا کی خبروں کی کمی کے پیش نظر یہ خاص طور پر اہم ہے۔ ہم نے اس کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا ہے اور ہم میں سے ہر ایک اپنے گھر جیسا محسوس کر رہا ہے، یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ملک نے سفر کے جذبے کو کتنی اچھی طرح سے سمجھا ہے۔ رپورٹنگ کی کمی نے اس کے اثرات کو متاثر نہیں کیا ہے اور اس بارے میں شکایت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس وقت کے بارے میں سوچیں جب ہمارے پاس ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کے لیے موبائل فون یا سوشل میڈیا نہیں تھا۔ ہم نے اپنا پیغام عام کرنے کے لئے اس وقت بھی طریقہ نکالا تھا اور حیرت انگیز طور پر اس سفر کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوا۔ اب ہر کوئی اس کے بارے میں کسی نہ کسی طریقے سے جانتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ واٹس ایپ فارورڈز اور اس سے آگے جو ٹی وی چینلز اور اخبارات دکھاتے یا پرنٹ کرتے ہیں، اس سے آگے ہمارا اندرونی مواصلاتی نظام اب بھی موجود ہے۔ جھونپڑیوں یا ٹاٹ پٹی والی چائے کی دکانوں، بسوں اور ٹرینوں میں، کھیتوں میں، دفاتر میں- ہر جگہ، کسی نہ کسی شکل میں، کسی نہ کسی دن، صبح یا شام، یہ بحث جاری ہے کہ بھارت جوڑو یاترا جاری ہے۔
اس کے اثرات پر ایک صحافی دوست نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ ہم نے ہندوستان کو کتنا متحد کیا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم کوئی درزی کی دکان نہیں چلا رہے، ہم یہ پیمائش کریں کہ دو میٹر کا اضافہ کیا ہے یا تین میٹر! پہلے اپنے آپ سے پوچھیں کہ ہم کتنے منقسم ہیں تبھی آپ سمجھیں گے کہ ہم کتنے قریب آئے ہیں۔ جب تک آپ یہ نہیں سمجھیں گے کہ ہم کتنے علیحدہ ہو گئے ہیں، آپ کو معلوم نہیں ہوگا کہ یہ یاترا کس طرح لوگوں کو یکجا کر رہی ہے۔ یاترا کو پارٹی سیاست کے لحاظ سے دیکھنا بہت معمولی بات ہے۔ یقیناً یاترا کا مقصد سیاسی بھی ہے لیکن یہ محض سیاسی نہیں ہے۔
ایک ایسے نوجوان کے بارے میں سوچیں جو سرکاری نوکری کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر جاتا ہے جب بھرتی کا عمل شروع نہیں ہوتا یا سوالیہ پرچہ لیک ہو جاتا ہے۔ اس بھارت جوڑو یاترا کا مقصد ایسے نوجوانوں میں امید پیدا کرنا ہے۔ اس کا مقصد ان خواتین کو امید، طاقت اور اخلاقی مدد فراہم کرنا بھی ہے جن کی عصمت دری کرنے والوں کو حکومتی احکامات پر رہا کیا جاتا ہے اور جن کی رہائی کا بہت سے لوگ جشن مناتے ہیں۔ ایسے اہم مسائل کو اجاگر کرنے میں کئی کامیابیوں کے ذریعے، آگے بڑھتے ہوئے، بھارت جوڑو یاترا اس بات کو یقینی بنائے گی کہ حکومت کو جوابدہ بنایا جائے۔
آپ ملک کے تمام لوگوں سے ٹیکس وصول کر رہے ہیں اور صرف اپنے دوستوں کی مدد کر رہے ہیں، یہ کام نہیں چلے گا۔ ملک کے لیے نعرے لگانے سے لیکن صرف اپنے دوستوں کی تجوریاں بھرنے سے نہیں چلے گا۔ ہم اس طرف بڑے پیمانے پر توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جس کے لیے روزگار کی پالیسی میں تبدیلی لانی چاہیے۔ جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے، اگر حکومت اپنا کردار ادا نہ کرے اور سب کچھ بازار پر چھوڑ دے تو یہ کیسے چلے گی۔ اگر حکومت عوام کی ذمہ داری نہیں لیتی تو عوام حکومت کی ذمہ داری کیوں لیں؟
میڈیا کے ایک اور ساتھی نے پوچھا کہ کیا اس یاترا سے راہل جی کی شبیہ بہتر ہوگی؟ سوال خود ہی غلط ہے۔ اس یاترا نے ان کی شبیہ کو 'بہتر' نہیں کیا ہے، انہوں نے لوگوں کو سامنے حقیقی راہل گاندھی کو ظاہر کیا ہے- ایک حساس، خیال رکھنے والا، ذہین لیڈر جو لوگوں سے فوری اور آسانی سے جڑ جاتا ہے۔ وہ سب کو آرام دہ بناتا ہے، خواہ وہ عورت ہو یا بچہ یا بوڑھا، پڑھا لکھا ہو یا ناخواندہ۔
ان کی شبیہ کو داغدار کرنے کے لیے کروڑوں روپے لگائے گئے لیکن آخر کار لوگوں کو اصلی آدمی نظر آنے لگا۔ اور ان کے بارے میں پوچھے جانے والے ناقابل یقین سوالات کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
(13 نومبر کو دہلی میں کنہیا کمار کی پریس بات چیت پر مبنی)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔