ٹائٹانک جہاز کا ملبہ دیکھنے سمندر میں اترے 5 لاپتہ افراد کے پاس اب صرف 20 گھنٹے کا آکسیجن، تلاشی مہم جاری

جو پانچ مسافر آبدوز میں سوار ہیں ان میں پاکستانی نژاد ارب پتی شہزادہ داؤد، ان کے بیٹے سلیمان داؤد، برطانوی ارب پتی حامش ہارڈنگ، فرنچ شہری پال آنری نارزیلیٹ اور اسٹاکٹن رَش شامل ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>ٹائٹانک جہاز کا ملبہ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

ٹائٹانک جہاز کا ملبہ، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

14 اپریل 1912 کو، یعنی 111 سال پہلے بحر اوقیانوس میں ایک برف کے تودہ سے ٹکرا کر ٹائٹانک جہاز ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔ رات کی تاریکی میں دیکھتے ہی دیکھتے کئی زندگیاں ختم ہو گئی تھیں۔ ٹائٹانک کے غرق ہونے کے کئی سالوں بعد اس جہاز کا ملبہ کناڈا کے نیوفاؤنڈلینڈ میں پایا گیا۔ اب یہ جہاز کئی مچھلیوں کا گھر بن گیا ہے۔ ٹائٹانک کے اس حصہ یعنی جہاز کے ملبہ کو اب بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ کمپنی ’اوشن گیٹ‘ کے پاس اس ملبہ کا دیدار کرانے کا ذمہ ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس کمپنی کے پاس ایک چھوٹا آبدوز ہے جو سمندر کی گہرائیوں میں اتر کر مسافروں کو ٹائٹانک کا ملبہ دکھاتی ہے۔ ٹائٹانک کا ملبہ دکھانے کے لیے آبدوز مسافروں کو سمندر میں 3800 میٹر نیچے لے کر جاتی ہے۔ یہ کافی خطرے سے بھرا ہوتا ہے۔ اس کے لیے 2 کروڑ 5 لاکھ 10 ہزار 625 روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ چونکہ ٹائٹانک کا ملبہ دیکھنے کے لیے کافی خرچ کرنا ہوتا ہے اور یہ سفر خطرناک بھی ہے، اس لیے کچھ ہی لوگ اس کو دیکھنے کی ہمت کر پاتے ہیں۔ حال ہی میں آبدوز میں سوار ہو کر 5 مسافر ٹائٹانک کا ملبہ دیکھنے کے لیے سمندر کے اندر گئے تھے جو اب لاپتہ ہیں۔ پورا آبدوز ہی لاپتہ ہے جس کی تلاشی کے لیے مہم جاری ہے۔


میڈیا رپورٹس کے مطابق جو پانچ مسافر آبدوز میں سوار ہیں ان میں پاکستانی نژاد ارب پتی شہزادہ داؤد، ان کے بیٹے سلیمان داؤد، برطانوی ارب پتی حامش ہارڈنگ، فرنچ شہری پال آنری نارزیلیٹ اور آبدوز چلانے والی کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو اسٹاکٹن رَش شامل ہیں۔ 18 جون کی صبح 6 بجے آبدوز کو سمندر میں چھوڑا گیا تھا، لیکن تب سے اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ 45 منٹ کے اندر ہی یہ آبدوز لاپتہ ہو گئی۔

ان لوگوں کی تلاش کے لیے امریکہ اور کناڈا کی بحریہ تلاشی مہم چلا رہے ہیں۔ تلاشی مہم کے دوران امریکی کوسٹ گارڈ فورس کو پانی کے اندر سے آواز سنائی دی ہے۔ کناڈا کے پی-3 طیارہ کے ذریعہ آواز کا پتہ لگانے کے بعد بھی بچاؤ اہلکاروں کو ابھی تک کچھ بھی نہیں ملا ہے، لیکن تلاشی مہم جاری ہے۔ بچاؤ اہلکار تیزی سے مہم چلا رہے ہیں کیونکہ جہاز پر 22 جون تک آکسیجن ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق اب آبدوز میں سوار پانچ افراد کے پاس تقریباً 20 گھنٹے کا ہی آکسیجن بچا ہے۔ ہر گزرتے وقت کے ساتھ آبدوز میں سوار لوگ موت کے منھ میں جا رہے ہیں۔ اوشن گیٹ کے صلاحکار ڈیوڈ کان کینن کے مطابق اتوار کو صبح 6 بجے جب یہ آبدوز سمندر میں چھوڑی گئی تو اس میں 96 گھنٹے کا آکسیجن موجود تھا، جو دھیرے دھیرے کم ہوتا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔