مدارس کا سروے: مدرسہ کے ذمہ دران کئی طرح کے شبہات میں مبتلا، 18 ستمبر کو دیوبند میں ہوگی اہم میٹنگ
سروے کے تحت 12 نکات پر جانکاری مانگی گئی ہے اور ریاست میں غیر منظور شدہ مدارس کا سروے تمام مخالفت اور سوالوں کے درمیان شروع ہو چکا ہے۔
اتر پردیش حکومت کے ذریعہ مدارس کا سروے کرانے کے فیصلے پر مدرسہ انتظامیہ کئی طرح کے اندیشوں اور شبہات کا سامنا کر رہی ہے۔ دیوبند کے اثر والے سینکڑوں مدارس میں سروے کو لے کر ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے، حالانکہ اس سلسلے میں کسی طرح کا خوف ہونے سے سبھی انکار کر رہے ہیں۔ بیشتر مدارس کے منتظمین حکومت کی نیت پر سوال کھڑا کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ صرف ایک خاص مذہب کے اداروں کو سروے کی زد میں لانا درست نہیں ہے۔ مدارس نہ ہی غیر قانونی طور پر چل رہے ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی غلط سرگرمی ہو رہی ہے۔ جن مدارس نے سرکاری منظوری لی ہوئی ہے، ان کی حالت بھی بہت ہی خراب ہے۔ وہاں 55 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ جن مدارس کو سرکاری منظوری نہیں ملی ہے، وہ بھی غیر قانونی نہیں ہے کیونکہ وہ وقف بورڈ کے تحت یا ادارہ کی شکل میں رجسٹرڈ ہیں۔ مدارس کے سروے کو لے کر شروع ہوئے مباحث کے درمیان دیوبند میں 18 ستمبر کو ایک اہم میٹنگ منعقد کی جا رہی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند اس کی کنوینر ہے اور اس اتوار کے روز اس سلسلے میں کچھ ضروری فیصلے لیے جانے کی امید ہے۔
سروے کے تحت 12 نکات پر جانکاری مانگی گئی ہے اور ریاست میں غیر منظور شدہ مدارس کا سروے تمام مخالفت اور سوالوں کے درمیان شروع ہو چکا ہے۔ سروے کو لے کر مسلم تنظیموں کی مخالفت کو دیکھتے ہوئے یو پی حکومت نے غیر منظور شدہ مدارس کے منتظمین کو اپنے مدرسہ سے متعلق پوری جانکاری خود ہی دینے کا موقع دیا ہے۔ مدارس کا سروے کر رہی ٹیموں سے بعد میں اس کا جغرافیائی سرٹیفکیشن کرانے کو کہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر مدرسہ کے سربراہ خود مطلع نہیں کریں گے تو وہاں سروے کی ٹیم پہنچے گی اور سبھی جانکاری طلب کرے گی۔
یوپی میں یوگی حکومت غیر منظور شدہ مدارس کا سروے 12 سوالوں کی بنیاد پر کروا رہی ہے۔ سوالوں سے متعلق ایک پروفارما تیار کرایا گیا ہے۔ مدرسہ کے ذمہ داران کو یہ پروفارما بھیجا جا رہا ہے۔ پروفارما میں دیے گئے 12 سوالات کے جواب کی بنیاد پر ہی مدارس کا سروے ہوگا۔ مدارس کے ذمہ داران ان سوالوں سے متعلق پوری جانکاری بھر کر ضلع اقلیتی افسر کو سونپ سکتے ہیں۔ اس کے بعد سروے ٹیم موقع پر یہ بھی دیکھے گی کہ دیے گئے جوابات کی حقیقت کیا ہے!
اس پروفارما میں مدرسہ کا نام، مدرسہ کو چلانے والے ادارہ کا نام، مدرسہ کے قیام کا سال، مدرسہ کرایہ کی عمارت میں ہے یا ذاتی عمارت میں، مدرسہ میں پینے کا پانی، بیت الخلاء، بجلی جیسی بنیادی سہولیات، مدرسہ میں پڑھنے والے طلبا و طالبات کی تعداد، مدرسہ میں اساتذہ کی تعداد، مدرسہ میں کون سا نصاب پڑھایا جا رہا ہے، مدرسہ کی آمدنی کا راستہ کیا ہے، مدرسہ میں پڑھنے والے طلبا کیا کسی اور یا دوسرے ادارہ میں بھی رجسٹرڈ ہیں، کیا مدرسہ کسی دیگر غیر سرکاری ادارہ یا گروپ سے منسلک ہے، جیسے سوال ہیں۔
حکومت کے حکم کے مطابق سروے 5 اکتوبر تک مکمل ہونا ہے۔ یہ سروے ایس ڈی ایم، بیسک ایجوکیشن افسر اور ضلع سطحی اقلیتی معاملوں کے افسر کی ٹیموں کے ذریعہ کیا جائے گا۔ ٹیمیں اپنی سروے رپورٹ اے ڈی ایم کو سونپیں گی، جو بعد میں ضلع مجسٹریٹ کو سونپی جائے گی۔ ہدایت میں کہا گیا ہے کہ ضلع مجسٹریٹ کو 25 اکتوبر تک سروے رپورٹ حکومت کے حوالے کرنی ہوگی۔
جمعیۃ علماء ہند کے قومی سربراہ مولانا ارشد مدنی نے مدارس کا سرکاری سروے کرائے جانے پر کہا ہے کہ ہمیں سروے پر کوئی شبہ نہیں ہے، ہمیں سرکار کی نیت پر شبہ ہے۔ اگر حکومت کی نیت صاف ہے تو وہ سبھی تعلیمی اداروں کا سروے کیوں نہیں کراتی؟ ہمارا اعتراض موجودہ حالات میں فرقہ وارانہ ذہنیت کو لے کر ہے۔ ہماری ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ ہمارے مذہبی اداروں کو آئین میں دیے گئے حقوق کی بنیاد پر چلنے دیا جائے، لیکن فرقہ پرست لوگ انھیں تباہ کرنے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں۔
سہارنپور اور مظفر نگر غیر منظور شدہ مدارس کے سب سے بڑے مراکز ہیں۔ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں مدارس ہیں۔ سہارنپور کے مفتی زبیر کہتے ہیں کہ مدارس نے آزادی کی لڑائی میں اہم کردار نبھایا ہے۔ خصوصاً دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ اور طلبا نے مل کر بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ہزاروں مدارس سے جڑے لوگ جنگ آزادی کی لڑائی میں شہید ہوئے ہیں۔ حکومت کی نیت پر بھروسہ نہیں ہو رہا ہے۔ یوگی حکومت کا یہ فیصلہ منمانا ہے اور مسلمانوں کو شبہات کی نظر سے دیکھنے کی کوشش ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت جن مدارس کو کوئی مدد نہیں دیتی ہے، ان مدارس کی جانچ کرانے کا حق اس کے پاس نہیں ہے۔
سہارنپور کے مولانا فرید مظاہری بتاتے ہیں کہ مدارس میں سروے کو لے کر بلائی گئی جمعیۃ علماء ہند کی میٹنگ میں کچھ اہم فیصلہ ہونے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں ہے۔ ہمارے اکابرین نے اس مسئلہ کی سنجیدگی کو سمجھا ہے اور تمام مدارس کے ذمہ داران کو ان پر اعتماد ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔