بہار میں جاری ذات پر مبنی مردم شماری کے خلاف عرضی سپریم کورٹ میں داخل، سماعت 13 جنوری کو
عرضی نالندہ کے اکھلیش کمار نے داخل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ مرکزی حکومت کے حلقہ اختیار میں آتا ہے، بہار حکومت نے جو قدم اٹھایا ہے وہ غیر آئینی، منمانا اور تفریق آمیز ہے۔
سپریم کورٹ بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کے فیصلے کو رد کرنے کے مطالبہ والی عرضی پر سماعت کے لیے راضی ہو گیا ہے۔ عدالت اس عرضی پر آئندہ جمعہ یعنی 13 جنوری کو سماعت کرے گی۔ ایک وکیل نے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی بنچ کے سامنے سماعت کے لیے عرضی لگائی تھی۔ بنچ میں شامل جسٹس پی ایس نرسمہا نے معاملے کو جمعہ کو فہرست بند کرنے کی گزارش کو قبول کر لیا۔
عرضی نالندہ کے ایک سماجی کارکن اکھلیش کمار نے داخل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ مرکزی حکومت کے حلقہ اختیار میں آتا ہے۔ عرضی میں ذات پر مبنی سروے کے سلسلے میں بہار حکومت کے ڈپٹی سکریٹری کے ذریعہ جاری نوٹیفکیشن کو رد کرنے اور متعلقہ افسران کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ذات سسٹم کے سلسلے میں آئین میں کوئی التزام نہیں ہے۔
وکیل ورون کمار سنہا کے ذریعہ تیار کردہ عرضی میں دلیل دی گئی ہے کہ یہ قدم ناجائز، منمانا، بے معنی، تفریق آمیز اور غیر آئینی ہونے کے علاوہ آئین کی اصل روح کے خلاف بھی ہے۔ اس میں مزید دلیل دی گئی ہے کہ مردم شماری ایکٹ 1948 کی دفعہ 3 کے مطابق مرکز کو ہندوستان کے پورے علاقے یا کسی بھی حصے میں مردم شماری کرانے کا حق ہے۔
دلیل پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مردم شماری ایکٹ 1948 کا منصوبہ یہ بتاتا ہے کہ قانون میں ذات پر مبنی مردم شماری سے متعلق غور نہیں کیا گیا ہے اور ریاستی حکومت کے پاس ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 6 جون 2022 کے نوٹیفکیشن نے آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی کی ہے جو قانون کے سامنے برابری اور قانون کا یکساں تحفظ فراہم کرتا ہے۔
عرضی میں ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ ریاستی انتظامیہ احکامات کے ذریعہ اس سلسلے میں قانون کی غیر موجودگی میں ذات پر مبنی مردم شماری نہیں کر سکتی ہے۔ بہار ریاست میں ذات پر مبنی مردم شماری کے لیے جاری نوٹیفکیشن میں قانونی جواز اور آئینی منظوری کی کمی ہے۔ اب اس معاملے پر عدالت عظمیٰ میں جمعہ کو سماعت ہوگی، تبھی پتہ چل سکے گا کہ بہار میں جاری ذات پر مبنی مردم شماری پر پابندی لگائی جائے گی، یا پھر اسے جاری رکھا جائے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔