ریاست کی منظوری کے بغیر سی بی آئی کارروائی پر ممتا حکومت کو سپریم کورٹ سے راحت، مرکزی حکومت کی دلیل مسترد

مغربی بنگال کی عرضداشت پرفریقین کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے 8 مئی کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ عدالت نے کہا ہے کہ سی بی آئی کو تحقیقات کے لیے ریاست کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ آف انڈیا /آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ آف انڈیا /آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: ممتا بنرجی حکومت کو سپریم کورٹ سے بڑی راحت ملی ہے۔ سپریم کورٹ نے مغربی بنگال کے معاملے کو سماعت کے قابل سمجھا ہے اور مرکز کی دلیل کو مسترد کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ہم قانون کے مطابق اس کی میرٹ پر آگے بڑھیں گے۔ عدالت نے اس پر دونوں فریق کے دلائل سننے کے بعد 8 مئی کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس سندیپ مہتا کی بنچ نے کہا ہے کہ سی بی آئی کو تحقیقات کے لیے ریاست کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے۔ قانونی حقوق آئین کے تناظر میں پیدا ہونے چاہئیں اور ان میں وفاق کی طاقت سے تحفظ بھی شامل ہے۔

واضح رہے کہ 16 نومبر 2018 کو مغربی بنگال حکومت نے دہلی پولیس اسپیشل اسٹیبلشمنٹ (ڈی ایس پی ای) ایکٹ کے سیکشن 6 کے تحت سی بی آئی کو اپنے دائرہ اختیار میں تحقیقات کے لیے دی گئی پیشگی رضامندی واپس لے لی تھی۔ مغربی بنگال حکومت نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کی جانب سے مرکزی ایجنسی سے رضامندی واپس لینے کے باوجود سی بی آئی کئی معاملات میں تفتیش کر رہی ہے، وہ بھی ہماری منظوری لیے بغیر۔ بنگال حکومت نے آئین کے آرٹیکل 131 کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی۔ اس میں سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کا ذکر ہے۔ اس کے مطابق مرکز اور ریاستوں کے درمیان مقدمات کی سماعت صرف سپریم کورٹ میں ہوتی ہے۔


اس کے جواب میں 2 مئی کو ہوئی آخری سماعت میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مرکز کی جانب سے کہا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 131 سپریم کورٹ کو ملے سب سے اہم حقوق میں سے ایک ہے۔ اس کا غلط استعمال نہیں ہونے دینا چاہئے۔ بنگال حکومت جن مقدمات کی بات کر رہی ہے ان میں سے ایک بھی مقدمہ مرکزی حکومت نے درج نہیں کیا ہے، بلکہ سی بی آئی نے درج کیے ہیں اور یہ ایک آزاد تفتیشی ایجنسی ہے۔ سی بی آئی پر مرکزی حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ جسٹس بی آر گوائی نے مرکز سے پوچھا تھا کہ امن و امان ریاست کا موضوع ہے۔ فرض کریں کہ کوئی مرکزی ملازم ڈکیتی کرتا ہے تو کیا اس معاملے کی جانچ صرف سی بی آئی ہی کرے گی؟

جسٹس سندیپ مہتا نے فوج کی مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی فوجی فوج کے کیمپ کے اندر بھی کوئی جرم کرتا ہے تو فوجی افسران اسے قانونی کارروائی کے لیے مقامی پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں مغربی بنگال حکومت کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا تھا کہ ان کا (مرکز) ارادہ ہے کہ وہ سی بی آئی کے ذریعے ریاست میں داخل ہوں، پھر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کا استعمال کریں اور پھر جو چاہیں کریں۔ اس کے دور رس نتائج ہوں گے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ان کیسز کی تحقیقات نہ کی جائیں۔ لیکن آپ ضابطہ فوجداری کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ میرے پاس ان مقدمات کی تفتیش کا یکطرفہ اختیار ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مرکزی حکومت کے ملازمین سے متعلق جرائم کی تحقیقات صرف مرکزی ایجنسی ہی کرے گی۔


واضح رہے کہ دہلی اسپیشل پولیس اسٹیبلشمنٹ ایکٹ کے سیکشن 2 کے تحت سی بی آئی صرف مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں جرائم کی از خود تحقیقات شروع کر سکتی ہے۔ ریاستوں میں کسی بھی معاملے کی تحقیقات شروع کرنے سے پہلے سی بی آئی کو دہلی اسپیشل پولیس اسٹیبلشمنٹ ایکٹ کی دفعہ 6 کے تحت مذکورہ ریاستی حکومتوں سے رضامندی لینی ہوگی۔ یہ رضامندی سی بی آئی کو کئی ریاستی حکومتیں پہلے ہی دے چکی ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں میں غیر بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں جیسے تمل ناڈو، مغربی بنگال، جھارکھنڈ وغیرہ نے مرکزی حکومت پر مرکزی ایجنسیوں کے غلط استعمال کا الزام لگا کر سی بی آئی کو مقدمات کی تفتیش کے لیے دی گئی رضامندی واپس لے لی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔